آئیں امریکہ و اسرائیل کا بائیکاٹ کریں
حالیہ دنوں جہاں امریکی سامراج ایک طرف شام وعراق میں دہشت گرد گروہوں داعش اور النصرۃ سمیت متعدد گروہوں کو اسلحہ اور مالی مدد فراہم کر کے ایک طرف غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کو پناہ دینے کی کوشش میں مصروف عمل ہے وہاں ساتھ ساتھ امریکی سیاست نے مسلم دنیا کے چند ایک حکمرانوں کو بھی اپنا بلا چوں چرا کرنے والا غلام بنا لیا ہے اور اسرائیل کے مفاد اور تحفظ کے لئے ایسے ایسے اقدامات ان نام نہاد مسلمان حکمرانوں سے انجام دلوا رہا ہے کہ جس کا مقصد فلسطین کاز کو دفن کرنا اور خطے میں موجود ایک جعلی ریاست اسرائیل کو تحفظ و مدد فراہم کرنا ہے۔
دوسری طرف حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکہ اپنے ان ناپاک عزائم میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو پا رہا ہے جس کا بنیادی سبب فلسطین سمیت پورے خطے میں امریکی و صیہونی قوتوں کے مد مقابل مزاحمتی قوتیں اور ان ممالک کی عوامی طاقت ہے۔بالخصوص فلسطین کے عوام کی ستر سالہ ثابت قدمی لائق تحسین ہے اور اس کی مثالیں دنیا میں کسی اور جگہ شاید ہی ملتی ہوں۔اسی طرح فلسطین کے پڑوس میں موجود ممالک کہ جو امریکی و صیہونی سازشوں کی زد پر ہیں یہاں کے عوام بھی امریکہ و اسرائیل کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے سینہ سپر ہیں۔
امریکہ نے اسرائیل کے بقاء و تحفظ کی جو قسم صیہونیوں کے پالیسی ساز ادارے ایپک میں کھا رکھی ہے اس کو نبھانے کے لئے پوری مسلم دنیا میں امریکہ کھلم کھلا قتل عام کا بازار گرم کئے ہوئے ہے اور ساتھ ہی ساتھ اسرائیل جیسی خونخوار اور جعلی ریاست کو اربوں ڈالر کا اسلحہ امداد کے نام پر دے کر دوسرے الفاظ میں فلسطینیوں کی موت کے پروانے پر دستخط کر چکا ہے اور نتیجہ میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ آئے دن انبیائے کرام کی سرزمین مقدس فلسطین خون میں غلطاں ہے ۔ تازہ مثال ہی لیجے کہ جب تیس مارچ کو یوم الارض فلسطین کے عنوان سے فلسطینیوں کے حق واپسی کے عنوان سے منعقد ہونیو الے پر امن احتجاجی مظاہروں کو کس قدر سفاکیت کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجہ میں سترہ فلسطینی شہید ہوئے اور پندرہ سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
کچھ روز قبل ہی سوشل میڈیا پر ایک نوجوان کی تقریر سننے کو ملی ہے کہ جس میں وہ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ایک قصہ بیان کر رہا تھا کہ جس کا متن کچھ اس طرح سے ہے، پیغمبر ختمی مرتبت حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے اصحاب کے ہمراہ چل رہے تھے کہ راستے میں ایک پتھر پر نظر پڑی تو آپ ﷺ نے اس پتھر کو راستے سے ہٹا دیا اور صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا کہ راستے میں موجود پتھروں کو ہٹا دینا چاہئیے تا کہ پیچھے آنے والوں کے لئے راستہ صاف رہے اور انہیں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔
اب اس روایت کو غور سے مطالعہ کرتا ہوں اور پھر فلسطین سے شام، لبنان، عراق، افغانستان، لیبیا، یمن، بحرین، کشمیر، پاکستان سمیت دنیا کے مسلمان ملکوں کی طرف نظر دوڑاتا ہوں تو یہاں دسیوں ہزار ایسے پیروکاران رسول اکرمﷺ نظر آتے ہیں کہ جو دنیا کی مشکلات کہ جن میں سب سے بڑی مشکل امریکہ و اسرائیل ہیں ، ان جیسے پتھروں کو راستے سے ہٹانے میں مصروف ہیں اور یہ کام صرف اس لئے انجام دے رہے ہیں کہ رہتی دنیا تک آنے والوں کو دنیا میں امن و آشتی دستیاب ہو، اور اس عظیم مقصد کی خاطر فلسطینی ہوں یا کشمیری، لبنانی ہو یا کہ یمنی ، بحرینی ہوں یا پھر شامی یا پھر پاکستان کے بے گناہ عوام ہوں، سب کے سب اپنی قیمتی ترین چیز جان کی قربانیاں پیش کر رہے ہیں تا کہ دنیا شیطانی قوتوں جیسے سنگین پتھروں سے پاک کر دی جائے۔
حالیہ دنوں فلسطین و کشمیر میں ایک طرف تو بھارتی و صیہونی افواج کی ایک جیسی کارروائیوں میں مظلوم کشمیری عوام اور فلسطینی عوام پر درندگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے تو دوسری جانب یمن میں امریکی اسلحہ سے لیس جہازوں سے معصوم اور نہتے شہریوں پر بمباری کا سلسلہ بھی جاری ہے صرف یہی نہیں بلکہ ظلم کی انتہاء تو حد کو اس وقت پہنچی ہے جب افغانستان میں امریکی جہازوں نے حملہ کر کے مدرسے میں موجود سیکڑوں معصوم انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ ان سب واقعات پر عالمی ضمیر تو شاید بھنگ پی کر نشے کی حالت میں ہے ہی لیکن مسلمان حکمران بھی اسی نشہ میں بد مست ہیں اور کسی نے ماسوائے ایران کے ، ان دہشت گردانہ اور سفاکانہ کاروائیوں پر مذمت تک کرنا گوارہ نہیں کی۔
ایسی سنگین صورتحال میں کہ جب ایک طرف مسلم دنیا بالخصوص سعودی ولی عہد کی جانب سے اسرائیل کی حمایت میں بیانات کا سامنے آنا اور مسلسل کشمیر و فلسطین سمیت افغانستان اور یمن کے حالات ہم سے متقاضی ہیں کہ پاکستان کے عوام اور اسی طرح پورے خطے کے عوام اور ہو سکے تو پوری مسلم دنیا کے عوام امریکہ اور اسرائیل کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، اپنے درمیان ایک ایسا کلچر پروان چڑھائیں کہ مقامی اشیاء کی خرید و فروخت یقینی ہو جائے اور یہ عالمی استعماری قوتیں جو ہم سے ہی سرمایہ نچوڑتی ہیں اور پھر ہمارے ہی پیسہ کو ہمارے ہی مظلوم فلسطینی و کشمیری، یمنی و افغانی اور عراقی و شامی عوام پر بمباری کی صورت میں نازل کرتی ہیں، حتٰی امریکی انتظامیہ نے پاکستان میں بھی ڈرون حملوں میں متعدد بے گناہوں کو موت کی نیند سلا یا ہے۔
پس درخواست یہ ہے کہ فیصلہ کر لیں کہ آج سے امریکی و اسرائیلی ساختہ مصنوعات کا خود بھی استعمال نہیں کریں گے اور معاشرے میں مزید آگہی فراہم کرتے ہوئے ہر با شعور کو اس بات پرقائل کرنا ہے کہ وہ امریکی و اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرے۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکی و صیہونی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا کوئی مشکل کام نہیں بلکہ افریقی اقوام نے ہم سے پہلے اس تجربہ کو کیا ہے اور آج افریقی ممالک میں امریکی و صیہونی مصنوعات کو سپر مارکیٹوں میں جگہ نہیں دی جاتی ، تو کیا یہ نا ممکن ہے کہ ہم اپنے مظلوم فلسطینی و کشمیری اور دنیا کے دیگر مسلمان اقوام کے ناجائز بہتے ہوئے لہو کی پاسداری نہ کر پائیں ؟
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔