جماعت اسلامی میں امیر کے انتخاب کا طریقہ
سراج الحق جس دن سے جماعت اسلامی کے دوبارہ امیر منتخب ہوئے ہیں ہمارے کالم نگاربھائی اس پر تبصرے فرما رہے ہیں ،ان تبصروں کو سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی کے انتخابات کے نتائج کا اتنی بے چینی سے انتظارجماعت کے ارکان کو نہیں تھا،جتنی بے چینی ہمارے دانشور بھائیوں کو تھی ۔کئی دوستوں نے اپنی رائے کے اظہار میں منفی پہلو ؤں کوتلاش کرنے اور مین میخ نکالنے کی اپنی سی کوشش کی ہے ،ہر ایک کی اپنی منطق ہے ،کسی نے اس انتخاب کو سخت مقابلہ بازی کا نام دیا ہے تو کسی نے اپنے طور پر شکست و ناکامی اور عدم اعتماد سے دو قدم آگے نکل کر ’’ وقت دعا‘‘ تک بات بڑھا دی ہے ،حالانکہ شوریٰ کی جانب سے ارکان جماعت کی رہنمائی کے لئے دیئے گئے ناموں والے دونوں حضرات نے سراج الحق کو استقامت کی دُعا دی۔
جب سراج الحق کو اپنے دوبارہ منتخب ہونے کا پتہ چلا تو ان کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی ،ان کے لئے بات کرنا مشکل تھا، انہوں نے ہچکیوں میں کہا کہ ’’یا اللہ !مَیں یہ بوجھ کیسے اٹھاؤں گا‘‘ ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے کارکنان نے ان کی ہمت بندھائی اور حوصلہ دیا،یہ منظر جماعت اسلامی میں پہلی بار دیکھنے میں نہیں آیا،جماعت اسلامی کے کسی بھی منصب کے لئے منتخب ہونے والا کوئی بھی فرداپنی ذمہ داریوں کو پھولوں کی سیج نہیں سمجھتا ،اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے بوجھ تلے دب جاتا ہے اور اچھے بھلے تواناشخص کی کمر جھک جاتی ہے،بلکہ جماعت اسلامی کے حلقوں میں تو ایک مقولہ مشہور ہے کہ ’’جس کی داڑھی اور سر کے بال جوانی ہی میں سفید نظر آئیں سمجھو کہ وہ کوئی تحریکی ذمہ داری پر ’’فائز‘‘ رہا ہے‘‘۔
پانچ سال قبل جب پرو فیسر ابراہیم نائب امیر کا حلف امارت اٹھانے لگے تھے تو وہ بھی بچوں کی طرح بلک بلک کر رو دیئے تھے ،سید منورحسن جب امیر جماعت کا حلف لینے لگے تھے تو ان کی آواز بھرا گئی تھی اور ان کے لئے حلف کی چند سطروں کی عبارت پڑھنا مشکل ہو گیا تھا! جماعت اسلامی میں اس طرح کے مناظر اکثر دیکھنے میں آتے ہیں، بلکہ بعض اوقات تو کئی کئی دن تک حلف اٹھانے کا معاملہ اِس لئے لٹکا رہتا ہے کہ جن صاحب کی ذمہ داری لگائی جاتی ہے وہ معذرت کرلیتے ہیں کہ مَیں اس منصب کے اہل نہیں ،آپ میرے کسی دوسرے بھائی کو منتخب کر لیں۔
دوسری طر ف ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوں کے اندر اپنے ہی ہم جماعت لوگوں کے درمیان پائی جانے والی مخاصمت ،عہدوں کے لئے رسہ کشی اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی افسوس ناک خبریں آئے روز اخبارات کی شہ سرخیاں بنتی رہتی ہیں۔
کاش ہمارے ملک کی سیاسی و دینی جماعتیں جماعت اسلامی کے اس مستحسن اور خالص اسلامی طریقہ انتخاب سے رہنمائی لیں اوراپنے افراد کے درمیان پائی جانے والی رنجشوں اور غلط فہمیوں کا خاتمہ کرنے کے بارے میں سوچیں۔
جماعت اسلامی اس حوالے سے قومی سیاسی جماعتوں میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے کہ یہ جماعت اپنے آغاز ہی سے اپنا ایک دستور رکھتی ہے،جس پر من وعن عمل ہوتا ہے اوردستور کی خلاف ورزی کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ،آغاز ہی سے جماعت اسلامی کے امیر کا چناؤ خفیہ رائے دہی سے ہوتا آیا ہے اور آج تک ایسا نہیں ہوسکا کہ کوئی امیر ارکان جماعت کی رائے کے بغیر آگیا ہو،جماعت اسلامی کی شورٰی ارکان جماعت کی سہولت کے لئے تین نام تجویز کردیتی ہے، مگر ارکان کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ تجویزکئے گئے ناموں کے علاوہ بھی اگر کسی کو اس منصب کازیادہ اہل سمجھتے ہوں تو اسے ووٹ دے سکتے ہیں ، دستور کی دفعہ 13میں امیر کے انتخاب کا طریقہ درج ہے،
جس کے مطابق ارکان جماعت کوایسے فرد کو منتخب کرنے کا پابند بنایا گیا ہے،جو امارت کا خود امیدوار نہ ہو اور اس سے کوئی ایسی بات ظہور میں نہ آئی ہو،جس سے پتہ چلے کہ وہ امارت کا خود خواہش مند یااس کے لئے کوشاں ہے اوریہ کہ ارکان جماعت اس کے تقویٰ ،علم کتاب و سنت، امانت و دیانت ،دینی بصیرت ،تحریک اسلامی کے فہم ،اصابت رائے ،تدبر ،قوت فیصلہ ،راہ خدا میں ثبات و استقامت اور نظم جماعت کو چلانے کی اہلیت پر اعتماد رکھتے ہوں۔
جماعت اسلامی میں انتخابات کا یہ انوکھا اور منفرد طریقہ ہے،جس میں کسی بھی منصب کے لئے کوئی امیدوارنہیں ہوتا،نہ کوئی لابنگ ہوتی ہے ،نہ دھڑے بنتے ہیں ، کسی کی ذات پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے اور نہ ہی کسی کی عیب جوئی کی جاتی ہے،بلکہ چھپ چھپ کر اپنے پروردگار سے دُعائیں کی جاتی ہیں کہ میرے اوپر یہ گراں بوجھ نہ ڈالنا !جماعت اسلامی کے تمام امراء نے ہی مرکزی شورٰی سے امیر جماعت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیئے جانے کی درخواست کی ،خود بان�ئ جماعت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ، میاں طفیل محمد ؒ ،قاضی حسین احمد ؒ اور سید منورحسن نے شورٰی سے امیر جماعت کی ذمہ داری سے فراغت کی استدعا کی۔
سید منورحسن تک منتخب ہونے والے امراء جماعت قبل ازیں سیکریٹری جنرل کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے تھے،مگر سراج الحق کے انتخاب سے یہ روایت قائم نہیں رہی ۔ امیر جماعت کے انتخاب میں کسی کی فتح و شکست یا کامیابی و ناکامی نہیں ہوتی، کامیابی اس دستور کی ہوتی ہے، جس میں اس منصب کو دنیاوی جاہ و جلال کے لئے نہیں،بلکہ اللہ کے دین کے غلبہ اور اخروی کامیابی اور رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ اتنی بڑی ذمہ داری کے احساس ہی سے بندے کی کمر جھک جاتی ہے اور اللہ کے سامنے جواب دہی کے خوف سے آنکھیں چھلک جاتی ہیں ۔