پولیس کا مورال بڑھنے لگا،میرٹ پر ترقیاں
کورونا وائرس کے خلاف پنجاب پولیس جس طرح فرنٹ لائن پر اہم کردار ادا کرتی نظر آ رہی ہے اس نے ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ یہ پولیس اہلکار نہ تو ڈاکٹر ہیں اور نہ ہی ان کا میڈیکل ہیلتھ سے کوئی تعلق ہے لیکن اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اس وقت پنجاب پولیس کے یہ اہلکار ہر جگہ ڈاکٹروں کے شانہ بشانہ نظر آ رہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹروں کی طرح پولیس اہلکاروں کی جانب سے پہلے دن سے ہی حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے حوالے سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا بلکہ یہ افسران و اہلکار انتہائی کم وسائل کے باوجود اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ دیگر محکموں کی طرح پہلے دن ان کو بھی مسائل کا سامنا تھا لیکن جیسے جیسے دن گزرتے گئے انہیں ماسک،سینی ٹائزر اور دستانے ملتے گئے۔ اس کے باوجود یہ کہنا پڑتا ہے کہ جس پوزیشن پر یہ اہلکار کھڑے ہیں وہاں محض دستانے اور ماسک کافی نہیں ہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ کس ناکے پر کورونا کے کسی مریض سے ان کا سامنا ہو، یہ ہسپتالوں میں بھی ڈیوٹیز کر رہے ہیں، کورونا کے مریضوں کی ہسپتال تک منتقلی سے لے کر قرنطینہ سینٹر میں انہیں محدود رکھنے تک ہمیں ہر جگہ پنجاب پولیس کے اہلکار ہی نظر آ رہے ہیں۔ دوسری جانب یہی پولیس انہی وسائل کے ساتھ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بھی متحرک ہے اور اس سلسلے میں بھی پولیس کی کاروائیاں سامنے آ رہی ہیں۔ پنجاب پولیس کے افسران و اہلکاروں کا یہ عزم اور ہمت دیکھتے ہوئے یقین ہو جاتا ہے کہ ہم بہت جلد اس وبا کے خلاف جنگ جیت جائیں گے۔
پنجاب پولیس کو اس قدر متحرک اور پر عزم کرنے میں موجودہ آئی جی پنجاب شعیب دستگیر اور ایڈیشنل آئی جی بی اے ناصرکا اہم کردار ہے جنہوں نے کمانڈ سنبھالتے ہی اپنی فورس کو پروفیشنل انداز میں منظم کیا اور ان کے حقیقی مسائل کو اپنے مسائل سمجھتے ہوئے حل کروانے کی بھرپور کوشش کی۔ ایڈیشنل آئی جی اسٹیبلشمنٹ بی اے ناصر کو یہ کریڈیٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے پنجاب پولیس میں کئی سال سے رکی ہوئی ترقیوں کا عمل بحال کیا اور پروموشن بورڈز کے اجلاس منعقد کروائے۔ ایڈیشنل آئی جی بی اے ناصر اور ان کے ڈی آئی جی اسٹیبلشمنٹ اشفاق خان کے کردار اور کام کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے جنہوں نے آئی جی پنجاب کے ویژن کے مطابق دن رات کام کرتے ہوئے نہ صرف پروموشن بورڈز کے اجلاس منعقد کروائے بلکہ پولیس افسران کی ترقیوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور اعتراضات کو دور کرتے ہوئے ان ملازمین کی ترقیوں کو یقینی بنایا جو کئی سال سے اس کے منتظر تھے۔ اس سلسلے میں پہلے ڈی ایس پی سے ایس پی کے عہدے پر ترقی کے لئے پروموشن بورڈکا اجلاس ہوا جس میں ڈی ایس پیز کو ایس پی کے عہدے پر ترقیاں دی گئیں۔ یہ ترقیاں کئی سال سے مختلف مسائل کی وجہ سے زیر التوا تھیں جن کو موجودہ آئی جی پنجاب و ایڈیشنل آئی جی اور ان کی ٹیم نے یقینی بنایا اور پھر ان افسران کو میرٹ، قابلیت اور سنیارٹی کی بنیاد پرترقیاں ملیں۔ اس کے کچھ دن بعد ہی سنٹرل پولیس آفس میں ٹریفک وارڈنزکی محکمانہ پروموشن کیلئے بھی اجلاس منعقدہوا جس میں پانچ ریجنز کے 86 وارڈنز کو گریڈ14 سے گریڈ16میں سینئر ٹریفک وارڈنز کے عہدوں پر محکمانہ ترقی دی گئی جس کی وجہ سے ان میں بھی پہلے سے مزید بہتر انداز میں فرائض سر انجام دینے کی امنگ پیدا ہوئی۔
یہ وارڈنز بھی کئی سال سے ترقی ملنے کے انتظار کے بعد اب مایوسی کا شکار ہو رہے تھے جس سے ان کا مورال بھی نیچے گر رہا تھا۔ یہ تو طے ہے کہ جب انسان کو اس کی محبت کا صلہ ملے تو اس کے کام کی رفتار اور معیار پہلے سے بہتر ہو جاتا ہے۔ یہی صورت حال ان دنوں پنجاب پولیس میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں لگ بھگ 86 انسپکٹرز کو بھی ڈی ایس پیز کے عہدوں پر ترقیاں ملی ہیں۔ اس سلسلے میں پروموشن بورڈ کے اجلاس میں لگ بھگ 438 انسپکٹرز کے کیسز کا جائزہ لیا گیا اور ان میں سے سنیارٹی، قابلیت، کارکردگی اور میرٹ کی بنیا د پر 86 انسپکٹرز کو ترقی دی گئی۔ یہ انسپکٹرز بھی کئی سال سے اس لمحے کے انتظار میں تھے۔ یہ ہی نہیں صوبے بھر میں خدمات سر انجام دینے والے 853سب انسپکٹرز کی ترقیوں کے کیسزبھی زیر غور آئے جن میں سے سنیارٹی اور بہترین ریکارڈ کے حامل پنجاب بھرسے تعلق رکھنے والے 123سب انسپکٹرز کو انسپکٹرز کے عہدوں پر ترقی دینے کی منظوری دی گئی۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایڈیشنل آئی جی بی اے ناصر اور ڈی آئی جی اشفاق خان نے جس طرح پرومشن بورڈز کے اجلاس میں میرٹ کو مقدم رکھا وہ قابل ستائش ہے کہ اس کے بعد جن کو ترقی نہیں مل سکی وہ بھی اعتراض نہیں اٹھا سکتے کیونکہ انہیں بھی معلوم ہے کہ کن بنیادوں پر وہ میرٹ پر پورا نہی اترتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ کہیں سے بھی ان ترقیوں کو چیلنج نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی نے اعترض کیا۔ جب آپ میرٹ کو حرف آخر قراردے دیں اور کسی قسم کی سفارش کی بجائے میرٹ کوہی یقینی بنائیں تو اسی طرح نیک نامی کماتے ہیں جیسے یہ افسران کما رہے ہیں۔اگر ہم کورونا کے حوالے سے مجموعی طور پر پنجاب پولیس کی بات کریں تو آئی جی پنجاب نے کورونا کے حوالے سے ایک اور بڑا کام یہ کیا کہ ان دیہاڑی دار مزدوروں کے ساتھ کھڑے ہو گئے جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے فاقہ کشی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اس سلسلے میں آئی جی پنجاب شعیب دستگیر نے”پولیس ریلیف فنڈ کورونا وائرس“ کی بنیاد رکھی ہے جس میں ان سمیت کانسٹیبل کی سطح تک ہر پولیس افسرو اہلکار اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ اس فنڈ کی مدد سے پنجاب پولیس ہر ضلع میں دیہاڑی دار غریب مزدوروں اور ضرورت مندوں میں راشن اور اشیائے خورد و نوش تقسیم کر رہی ہے۔پنجاب پولیس کا یہ کردار اس قدر خوبصورت ہے کہ رشک آتا ہے۔ اسی طرح معاشرے کے ہر فرد خصوصا مخیر حضرات پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس مشکل وقت میں دوسروں کی مدد کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔