دال میں کچھ کالا ہے...!!!
ملک کی سبھی سیاسی اور دینی جماعتوں میں "شخصیت پرستی" کے "مکروہ رجحان" نے کارکنوں کی ایسی "جذباتی کھیپ "کو جنم دیا جو اپنے قائدین کے الفاظ کو "حرف آخر "سمجھتی ہے۔۔۔ادھر آپ ان کے"نیتائوں" سے اختلاف کی جسارت کریں ادھر یہ لوگ آپ کو "تختہ مشق" بنا دینگے...!!! بھٹو کے "جیالے"۔..نواز شریف کے "متوالے" اور مولانا کے "رکھوالے"اس صفحے پر ایک ہیں۔۔.!!!
بدقسمتی سے اس"ٹریک پر"تحریک انصاف کی "سپیڈ" سب سے زیادہ خطرناک ہے کہ وہاں "جذباتی پن "کے برعکس" ہیجانی کیفیت "کا غلبہ ہے۔۔.کپتان کے پاس سیاسی کارکن نہیں "مداحوں" کی فوج ظفر موج ہے..."فین فالونگ" کا یہ "لشکر جرار" سوچے سمجھے بغیر آنکھیں بند کرکے تالیاں پیٹتا اور نعرے لگاتا ہے...سٹیڈیم میں بیٹھے یہ وہ "ضدی تماشائی"ہیں جو ہر صورت میچ جیتنا چاہتے اور شکست کی صورت گھر کے برتن توڑ دیتے ہیں۔۔.ابھی دو تین دن پہلے کی بات ہے کہ میں نے چودھری سرور بارے ایک ہلکی پھلکی تنقیدی پوسٹ کی۔۔.ایک "جذباتی انصافی بچے" کو اس وقت" اپنے گورنر صاحب" کی برطرفی اور قلابازی کا علم نہیں تھا۔۔۔"منے بھائی" نے جھٹ سے اپنے کمنٹ میں مجھے "لفافہ صحافی" قرار دے دیا۔۔.خیر یہ کوئی انوکھی بات نہیں ۔۔۔ہر وہ میڈیا پرسن جو اختلافی نکتہ نظر رکھتا ہے اسے اس صورتحال کا سامنا ہے۔۔.بات بات پر "فتوے بازی "کا یہ کلچر پہلے صرف مذہبی جماعتوں میں دیکھنے کو ملا کرتا تھا مگر اب یہ "چلن عام" ہے۔۔۔!!!
"انصافی بچے "کی "جارحانہ حرکت" سے مجھے برسوں پہلے ایک دینی کارکن کا دلچسپ واقعہ یاد آگیا...ہوا یوں کہ میں نے ایک پریس کانفرنس میں ان "قاری صاحب" کے "سخت گیر قائد "سے سخت سوال کر دیا۔۔۔وہ اپنے مزاج کیخلاف سوال پر" لال پیلے" ہوگئے۔۔. اگلی مرتبہ میں پھر وہاں نیوز کانفرنس میں گیا تو موصوف نے مجھے دروازے پر روک لیا کہ تم اندر نہیں جا سکتے۔۔۔ان کے رہنمائوں نے قاری صاحب کو مجھ سے الجھتے دیکھا تو بھاگے آئے اور "وجہ تنازع" پوچھی تو "حضرت" بولے یہ بندہ ٹھیک نہیں کہ ہمارے قائد سے" الٹے سیدھے سوال "کرتا ہے...قہقہہ لگا اور میں اندر چلا گیا!!! آج یہی حال "انصافی بچوں "کا ہے کہ وہ بھی وہ اپنے ہینڈ سم "آئی کے"کی طرح پہلے بولتے پھر سوچتے ہیں۔۔۔یہ" اندھی عقیدت" تو ہو سکتی ہے سیاسی مزاج ہرگز نہیں!!!چلیں صحافی تو "تلخ و شیریں" کے عادی ہیں ۔۔۔ دشنام طرازی کے طوفان میں بھی مسکراکر گزر جاتے ہیں کہ:
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ
رقیب گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
مجھے تو "انصافی بچوں" کا غم کھائے جا رہا ہے کہ اب وہ صاف چلی،شفاف چلی پی ٹی آئی کے اندر "اولڈ کرائسس" کا کیا کرینگے کہ اب کی بار "بھابھی ریحام خان"سے بات کہیں آگے نکل گئی ہے اور بیک وقت ایک دو نہیں اکٹھے تین" مال دار بابے"خان صاحب سے بری طرح "بگڑ" گئے ہیں۔۔۔!!!
محبت ہو یا سیاست،عہد وفا کے بندھن سے ہی "یہ سفر"معتبر ٹھہرتا ہے... ہمارے نزدیک جو منحرف ہوتا ہے کم ظرف ہوتا ہے۔۔۔ عرض محبت ہے کہ یہ قرض محبت ہے۔۔۔ مجھے ذاتی طور پر" ابن الوقت لوگوں" سے شدید نفرت ہے کہ چڑھتے سورج کے پجاری گھٹیا ترین لوگ ہوتے ہیں۔..!!!
مجھے آج بھی اس ضرورت مند "احسان فراموش" کے الفاظ ڈستے ہیں کہ جس کی نوکری کے لیے رات کے آخری پہر ایک صحافی دوست کو فون کیا لیکن ایک دن وہ کہنے لگا کہ میں اس نوکری کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں۔.. برادرم عرفان ریاض ایک رات اس" بے ضمیر بندے" کو ساتھ لیے میرے پاس میرے اس وقت کے دفتر آئے...ہم نے ریگل چوک بیٹھ کر چائے پی۔۔۔کہنے لگے یہ بھائی صاحب آپ کے علاقے کے ہیں...بیروزگاری سے برا حال ہے۔۔۔کسی اخبار میں کوئی چھوٹی موٹی جاب دیکھیں...میں نے افسر دوستوں کی" فہرست" دیکھی ۔۔۔ہمارے سنئیر ترین دوست میاں ہارون الرشید ان دنوں شام کے ایک اخبار کے چیف نیوز ایڈیٹر تھے۔۔۔میں نے اسی وقت انہیں فون کرکے اس بندے کی نوکری کی سفارش کر دی۔۔.انہوں نے صحافت کی ابجد سے بھی ناواقف اس "چھانگے" کو" آئوٹ آف دی وے" کسی "کھاتے" میں ڈال کر اپنے پاس بٹھا لیا۔۔۔بہت کچھ سکھایا...چند ماہ گزرے کہ مجھے میاں صاحب کا فون آیا ۔۔۔وہ افسردہ افسردہ تھے۔۔۔کہنے لگے مجھے آپ کے بندے پر بہت دکھ ہوا ہے۔۔۔میں نے اسے ناجانے کیسے" سچ جھوٹ "بول کر نوکری دی مگر آج کسی بات پر وہ آپے سے باہر ہو گیا اور دھاڑتے ہوئے چلا گیا کہ ایسی نوکری کو میں جوتے کی نوک پر لکھتا ہوں۔۔۔میں نے میاں صاحب سے معافی مانگی کہ میری وجہ سے آپ کو خوامخواہ ہزیمت اٹھانا پڑی۔۔.کچھ ماہ گزرے وہ" ابن الوقت "میرے پاس دفتر آیا اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا...میں نے ہاتھ آگے بڑھائے بغیر پوچھا کیسے ہو اور اپنے کام میں مگن ہو گیا...کچھ دیر بعد وہ اٹھ کر چلا گیا اور پھر آج تک نہیں ملا۔۔۔!!!
بات ہو رہی تھی جذباتی" انصافی بچوں" کے"ناراض بابوں" کی تو عرض ہے کہ چودھری سرور کو چھوڑیں۔۔۔ وہ تو "بے وفائی کے باب" میں" عادی مجرم" ہیں کہ پہلے اپنے محسن نواز شریف سے" ہاتھ" کر گئے... اب عمران خان سے" اس بڑھاپے" میں "فلرٹ" کرتے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اور بڑے بے آبرو ہو کر گورنر ہاؤس کے کوچے سے نکلے۔۔. پیارے انصافی بچو! جہانگیر خان ترین اور علیم خان کی کہانی تو اس عہد میں "ایفائے عہد" کی بے مثال کہانی ہے۔۔۔ انہوں نے تو ""خون دل" دے کے "رخ برگ گل "نکھارا۔۔۔عمران خان کے لیے مال لٹایا...جہاز اڑائے...."عہد وفا "کی ایسی "دل پذیر داستان" لکھی کہ" رقیب" عش عش کر اٹھے... ہمارے خیال میں اگرچہ یہ وقت "سنگدل محبوب" کی "جفائوں" کے تذکروں کا نہیں کہ" اہل وفا "زخموں سے چور بھی ہوں تو" آہ" نہیں کرتے تاہم پھر بھی بڑے دل والے"دونوں خان " دل برداشتہ ہو کر جس طرح بھری محفلوں میں کچھ "پردہ نشینوں" کی "حرکات و سکنات" کے بارے میں"اظہال خیال"کر رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ"دال میں ضرور کچھ کالا" ہے۔۔۔"گردش ایام" کب رکتی ہے۔۔.آج نہیں تو کل" پردے" اٹھیں گے اور سب راز کھلیں گے...پھر کس کس پر "بہتان "دھرو گے...کس کس کو" دشنام" کہو گے؟؟؟
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں