کھیل ہی کھیل میں  

 کھیل ہی کھیل میں  
 کھیل ہی کھیل میں  

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کہتے ہیں ’جن‘جاتے ہوئے(کنداں کوٹھے ڈھاندااے)مطلب جن جاتے ہوئے نقصان کرتاہے اس بات کی وضاحت یوں ہے کہ بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص میں جن ہے کسی کامل بزرگ سے اللہ اللہ کرانے سے جن نکل تو جاتا ہے لیکن جاتے ہوئے کوئی نقصان کرجاتا ہے ایسے ہی جناب عمران خان چلے تو گئے لیکن جاتے ہوئے جمہوری نقصان کر گئے یہ بات سیدھی سی ہے کہ جب ایک وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی ہو اور ووٹنگ کیلئے قومی اسمبلی میں ممبران بھی موجود ہوں تو وزیراعظم کے لئے اسکا سامنا کرنے کے سوا کوئی دوسرا رستہ نہیں بچتا لیکن ڈپٹی اسپیکر صاحب نے آئین شکنی کی نئی مثال قائم کر دی ہے تاکہ آنے والے وزیراعظم کے خلاف کبھی ایسی نوبت آئے بھی تو وہ   ایسا کرسکتا ہے یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے غیر آئینی طریقے اختیار کرلیتے ہیں جناب عمران خان نے ایک بار کہا تھا کہ میں تو موت سے بھی نہیں ڈرتا لیکن آج وہ عدم اعتماد کی تحریک سے خوفزدہ ضرور ہو گئے اور ساتھ ہی انکی 22 سالہ جدوجہد بھی منطقی انجام کو پہنچی کہ انکی تمام تر سیاسی کوششوں کا محور اقتدار کا حصول ہی تھا وگرنہ اقتدار میں آکر  انہوں نے عوام کے ساتھ جو کیا اسکی کوئی نظیر نہیں ملتی ریاست مدینہ کے نام پر   دو اڑھائی لاکھ میں ہونے والا حج تقریباً آٹھ لاکھ پر پہنچا دیا۔غریب آدمی جیسے تیسے ایک آدھ تولے سے اپنی بیٹی کے کان ڈھانپ ہی لیتا تھا لیکن سونا چالیس پچاس ہزار سے ایک لاکھ چالیس تک جا پہنچا یہ عوام عمرانی حکومت سے ملنے والے زخم شائد کبھی نہ بھولیں گے کہ ان زخموں سے درد کی ٹیسیں ہمیشہ اٹھتی رہیں گی یہ بیرونی سازش کی معجون سے اب تحریک انصاف کو شائد کچھ افاقہ نہ ہو کہ عمران خان سے پہلے حکمرانوں نے بیرونی سازشوں کا بڑی مردانگی سے مقابلہ کیا  اور خط کی حقیقت بھی آشکارہوچکی ہے اس میں کچھ بھی نہیں ہے ایک ٹی وی چینل پر بیٹھے عثمان ڈار صاحب فرمارہے تھے کہ نواز شریف  نے ایٹمی دھماکے کئے تو چار ماہ بعد انکی حکومت کہاں گئی تھی؟ چلئے عثمان ڈار صاحب نے یہ اعتراف تو کیا نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کئے اور اقتدار سے محرومی یا اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کی جیسے آج جناب خان کہتے پھرتے ہیں کہ انکی جان کو خطرہ ہے جناب عمران خان جس عدم اعتماد کی تحریک پر اللہ کا شکر ادا کرتے رہے اسی سے اب راہ فرار اختیار کرگئے گویا ان میں حوصلے کا فقدان اور سیاسی بصیرت کی کمی بھی ہے وگرنہ جیسے عمران خان صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میرے خلاف چند لوگ بھی نکلے تو اقتدار سے الگ ہوجاؤں گا انہیں بہت پہلے مستعفی ہو کر سیاسی استحکام حاصل کرنا چاہئے تھا  ریل گاڑی جب بہت تیز چلتی ہے تو پٹڑیوں کے قریب پڑے پتھر اڑ کر دور جاگرتے ہیں اور بعض اوقات وہ پتھر کسی کو زخمی بھی کردیتے ہیں جناب عمران خان کی حکومت بھی کچھ ایسا ہی کر گذری عمران خان صاحب اقتدار کے پہلے دن سے کہنا شروع ہوئے میں نہیں چھوڑوں گا اور پھر کیا ہوا کہ سیاسی مخالفین نے انہیں نہ چھوڑا جناب عمران خان کی جماعت طویل جدوجہد کے بعد اقتدار میں آئی تھی اور اقتدار تک پہنچتے عمران خان  بڑے تلخ و شیریں حالات سے گذرے اور اقتدار کے لئے ایسے دیوانے ہوئے کہ ہوش ہی کھو بیٹھے اور دیوانگی میں نہ جانے کیا کیا کہتے گئے انہوں نے مسلم لیگ ن کی پچھلی حکومت میں پی ٹی وی پر قوم سے خطاب کی آرزو کرڈالی تھی جناب عمران خان کی سیماب طبیعیت نے ہمیشہ انہیں بے قرار رکھا اور اسی اضطراری کیفیت کے ہاتھوں خان صاحب نے سیاسی مخالفین کو زچ کرنا شروع کیا اور وہ سلسلہ ہنوز جاری ہے حالانکہ عوام انہیں اپنے مسائل کے حل کے لیے اقتدار میں لائے تھے اپوزیشن کو لتاڑنے کے لئے نہیں یہی وجہ ہے کہ عمران خان صاحب نے سارا وقت ہی اپوزیشن کیلئے وقف کر دیا اور عوام عمران خان کامنہ دیکھتے رہ گئے عمران خان صاحب نے اقتدار کو کھیل سمجھ لیا تھا اور پھر کھیل ہی کھیل میں سارا کام بگاڑ بیٹھے لیکن انہیں یہ خبر نہیں کہ عوام کا مزاج جب بگڑتا ہے تو وہ کسی کو خاطرمیں نہیں لاتے عوام کو ابھی تین سال پہلے تک پٹرول 60 روپے تک میسر تھا ڈالر 105 کا تھاچینی 55 آٹا 35 روپے کلو تھا بجلی فی یونٹ 8 روپے تھی  ایل پی جی گیس کا سلنڈر آٹھ سو کا تھا اور اب بات کہاں پر جا پہنچی ہے۔ ملک قیام پاکستان سے لے کر تین سال پہلے تک جتنا مقروض ہوا خان صاحب نے اتنا اپنے ساڑھے تین سالوں میں کر دیا باقی جو کسر رہ گئی ہے وہ عمران خان پھر سے اقتدار میں آکر پوری کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔جسٹس شہاب الدین جب گورنر ہاؤس سے رخصت ہوئے تو اپنے قلم کی روشنائی یہ کہہ کر نکال دی کہ میں کوئی سرکاری چیز ساتھ کے جانا نہیں چاہتا۔انجیلا مرکل جرمن چانسلر2005سے مسلسل اقتدار میں تھی چار بار قومی اسمبلی کیلئے جیتی ا پنے گھر کاکام اپنے ہاتھوں سے کرتی انہوں نے 16سال کے اقتدار کے بعد اکثریتی جماعتChristian democraticunionکی لیڈر شپ چھوڑ نے کا اعلان کیا تو جرمن شہری گھروں اوردفاتر سے باہر آئے اور چھ منٹ تک تالیاں بجا کر اسے خراج تحسین پیش کرتے رہے انجیلا مرکل  اس قدر جفا کش تھی ایک بار جرمن میڈیا نے لکھا کہ یہ ایک خاتون لاکھوں مردوں کے برابر ہے میرے ملک کو بھی آج ایسے ہی لیڈروں کی ضرورت ہے وگرنہ یہ سیاستدان تو ملک و قوم کے درپے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -