عوامی جمہوریہ چین کی حیرت انگیز کامیابیاں

عوامی جمہوریہ چین کی حیرت انگیز کامیابیاں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app



ان دنوں لندن اولمپکس دھوم دھام سے جاری ہیں اور دنیا کے چھوٹے بڑے تمام ممالک جسمانی مقابلہ آرائی کے عظیم الشان مظاہرے کر رہے ہیں۔ انسان کی نفسیات میں شامل ہے کہ وہ اپنے آپ کو نمایاں کرنا چاہتا ہے اور بالا دستی کا خواہش مند ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ بھی مقابلہ آرائی اور بالادستی کے حصول کی تگ و دو سے بھری پڑی ہے۔ کبھی ایک قوم بازی لے جاتی ہے اور دوسری کو ہار ماننا پڑتی ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ بھی انسانی فطرت اور جدوجہد کا اظہار ہے۔ قدرت کے اپنے قوانین ہیں جو اٹل ہیں اور کسی قوم کے لئے تبدیل نہیں ہوتے۔ انسان تو اپنے لئے استثنا مانگتے ہیں، لیکن قدرت کے پاس کسی کے لئے کوئی استثنا موجود نہیں۔ جو قوم یا معاشرہ ان آفاقی قوانین کا ادراک کر کے جہدِ مسلسل کرتا ہے، قدرت اس پر مہربان ہو جاتی ہے اور ترقی کی منازل خود بخود طے ہونے لگتی ہیں۔

ایک وقت تھا جب امریکی اور سوویت بلاک کے ممالک میں تقریباً تمام شعبوں میں مقابلہ آرائی اپنے عروج پر تھی۔ سوویت بلاک میں وارسا پیکٹ کے ممالک شامل تھے اور امریکی بلاک میں نیٹو ممالک تھے۔ وارسا پیکٹ تو ختم ہو چکا، اب صرف نیٹو ممالک یا امریکی بلاک باقی ہے، جو گزشتہ کئی سال سے جنگ و جدل میں مصروف ہے۔ جب یہ دونوں بلاک قائم تھے تو اس وقت اولمپکس میں ان کے مابین مقابلہ آرائی ہوتی تھی۔ دونوں بلاک اپنے نظام کو بہتر ثابت کرنے کے لئے اولمپکس کی کارکردگی کو استعمال کرتے تھے اور اولمپکس کی کارکردگی بطور پراپیگنڈہ استعمال ہوتی تھی۔ بالخصوص سوویت بلاک کے ممالک سوشلزم کو سرمایہ داری نظام کے مقابلے میں بہتر ثابت کرنے کے لئے اولمپکس کی کارکردگی کو پراپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ان دنوں سوویت یونین اپنے کھلاڑیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے جدید سائنسی طریقوں سے بھرپور استفادہ کرتا تو روسی سائنسدان اولمپکس کھیلوں میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کو اس طرح تیارکرتے تھے کہ اُن کے جسم سے خون نکال لیا جاتا اور پھر کھلاڑیوں کو بھرپور غذا فراہم کی جاتی تھی۔ انسانی جسم کی کارکردگی میں اس طرح اضافہ ہو جاتا تھا۔ اس کے بعد کھلاڑیوں کا نکالا ہوا خون انہیں دوبارہ لگایا جاتا تھا اور اُن کی کارکردگی میں اضافہ کیا جاتا تھا۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سوویت اور امریکی بلاک میں اولمپکس میڈلز کے حصول میں مقابلہ آرائی ختم ہو چکی ہے اور اولمپکس میں امریکی کارکردگی کو عوامی جمہوریہ چین کی طرف سے بہت بڑا چیلنج درپیش ہے۔ اولمپکس میں چینی اتھلیٹوں کی کارکردگی نہایت ہی حیرت انگیز اور خوش کن ہے۔ جسمانی لحاظ سے امریکی اور یورپی اقوام ایشیائی اقوام کے مقابلے میں موروثی اور آب و ہوا کے لحاظ سے زیادہ طاقتور ہیں۔ ان کی جسامت میں بھی فرق نمایاں ہے۔ جب ہاکی کے میچ ہوتے ہیں تو ہمارے کھلاڑی جلد تھک جاتے ہیں،جبکہ یورپی ٹیمیں آخری لمحات تک فٹ رہتی ہیں اور آخری لمحوں میں بھی ان پر تھکاوٹ کے آثار نظر نہیں آتے۔ بسا اوقات آخری لمحات میں یہ ٹیمیں گول کر دیتی ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین کے کھلاڑیوں نے بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں میں جس حیرت انگیز کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے تو وہ ایک قوم کی انتھک محنت، جوش و جذبے اور کام سے لگاو¿ کا بہترین ثبوت ہے۔ اس پر یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ جب کوئی قوم آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لے اور اس کے لئے اَن تھک جدوجہد اور محنت کو اپنا شعار بنا لے تو پھر کوئی بھی اس قوم کاراستہ نہیں روک سکتا۔

آج اگست کی تین تاریخ ہے اور اس وقت تک لندن اولمپکس میں سونے کے تمغے حاصل کرنے میں چین امریکہ سے آگے ہے اور مجموعی تمغوں میں تقریباً برابری کی سطح پر ہے۔ یہ کوئی معمولی کارکردگی نہیں ہے اور اس میں دوسری اقوام کے لئے بہت اہم سبق ہے۔ عوامی جمہوریہ چین نے صرف کھیلوں میں ہی عظیم الشان کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس کی معاشی ترقی اور جی ڈی پی کی شرح تقریباً دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ اس نے کہیں کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا اور قدرتی آفات اور دیگر چیلنجوں کا اپنے وسائل سے مقابلہ کیا ہے۔ ایک ہم ہیں کہ روزانہ شام کے وقت ٹیلی ویژن چینلوں پر اپنے دانشوروں کی باتیں سنتے ہیں، جو خود ذہنی انحطاط کا شکار ہیں۔ ہمارے تبصرہ نگاروں اور دانشوروں کی سوئی اس بات پر اٹکی ہوئی ہے کہ امریکہ نے ہمیں کیا مفاد دیا۔
 جس قوم کے دانشور بھکاریوں جیسی ذہنیت کا مظاہرہ کریں، اس کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔ بات تو چین کی ترقی کی ہو رہی تھی۔ ہم کہتے رہتے ہیں کہ ساٹھ سال کا عرصہ کسی قوم کی زندگی میں کچھ بھی نہیں ہوتا، لیکن ہمارے اس ہمسائے نے گزشتہ چند دہائیوں میں ہی ترقی کی حیرت انگیز منازل طے کی ہیں۔ چین کی ترقی صرف چند شعبوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ آئندہ سالوں میں اس نے چاند پر خلائی مشن بھیجنے کا بھی پروگرام بنا لیا ہے اور ماہرین کے مطابق چین کا خلائی پروگرام آئندہ سالوں میں دنیا بھر میں پہلے نمبر پر آنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چین کی ان کامیابیوں کی ایک وجہ اس کی پُرامن خارجہ پالیسی بھی ہے۔ چین اپنے کام سے کام رکھتا ہے اور دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت یا بالادستی وغیرہ کا جنون اس کے سر پر سوار نہیں ہے۔ اب تو چھوٹے موٹے ملک بھی دوسرے ممالک کے اندرونی معالات میں ٹانگ اڑانے سے باز نہیں آتے۔ خواہ خود اپنی گردن ہی تڑوا لیں۔ ایک چین ہے جو تمام وسائل اور طاقت کے باوجود لڑائی جھگڑوں سے اپنے آپ کو بچاتا رہتا ہے۔
ایک خطے اور علاقے کے لوگ ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہو سکتے ہیں، اس کا مشاہدہ پاکستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کے حالات کے مابین فرق سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ ایک بارڈر اور سرحد کراس کرنے سے حالات یکسر تبدیل ہو جاتے ہیں، حالانکہ سرحد پار کرنے سے نہ وسائل اور نہ آب و ہوا اور نہ موسمی حالات میں زیادہ تبدیلی آتی ہے۔ پاکستان سے آپ عوامی جمہوریہ چین میں داخل ہوں تو آپ ایک ایسے ملک میں داخل ہوتے ہیں جو زندگی کے ہر شعبے میں حیرت انگیز ترقی کر رہا ہے۔ آپ افغانستان میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو قتل و غارت سے سابقہ پڑے گا اور انسان اپنے آپ کو بموں سے اڑاتے اور ایک دوسرے کے گلے کاٹتے نظر آئیں گے۔ آپ انڈیا میں داخل ہوں تو حالات مثالی نہیں، لیکن پاکستان سے بہرحال بہت بہتر ملیں گے۔ آپ ایران میں داخل ہوں تو کچھ مسائل کے باوجود آپ کو پاکستان کے مقابلے میں واضح فرق نظر آئے گا۔ واقعی اللہ تعالیٰ کی زمین پر بسنے والے انسانوں پر ہی منحصر ہے کہ وہ اللہ کی اس نصیحت کو اپنے اعمال سے دوزخ میں تبدیل کر لیتے ہیں یا جنت بنا لیتے ہیں۔  ٭

مزید :

کالم -