طوفانی بارشیں اور نکاسی آب کے مسائل

طوفانی بارشیں اور نکاسی آب کے مسائل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مون سون کی جو تیز بارشیں پندرہ بیس روز پہلے متوقع تھیں وہ بالآخر ہفتے کو برسیںاور خوب برسیں، ملک کے بیشتر حصوں میں اِن بارشوں کے اثرات تقریباً ایک جیسے رہے، بارش چونکہ بہت تیز تھی اِس لئے لمحوںمیں بارش کا پانی سڑکوں پر جمع ہو گیا ،سڑکیں جھیلوں کا منظر پیش کرنے لگیں، ندی نالے چڑھ گئے،راولپنڈی میں نالہ لئی میں پانی کی سطح بلند ہو گئی،دریاﺅں میں بھی پانی کی سطح بلند ہو گئی،راوی جیسے دریا نے بھی جو عرصے سے محض ایک نالے کا منظر پیش کرتا ہے۔ پانی کا مُنہ دیکھا، گرمی کے ستائے اور گھبرائے ہوئے روزہ داروں نے سُکھ کا سانس لیا، مرجھائے ہوئے چہرے کھل اُٹھے، درجہ حرارت کم ہو گیا اور ہوا میں خنکی پیدا ہو گئی، سڑکوں پر جو پانی جمع ہو گیا تھا اُس نے اُترتے ہوئے کئی گھنٹے لگا دیئے، جو علاقے نشیب میں ہونے کی وجہ سے روایتی طور پرپانی میں ڈوب جاتے ہیں اُنہیں تو ڈوبنا ہی تھا، تیز بارش کی وجہ سے جدید اور پوش آبادیوں کی سڑکوں پر بھی پانی کھڑا ہو گیا اور اُس کے نکاس میں کافی وقت لگ گیا۔
لاہور جیسے بڑے شہروں میں نکاسی ¿ آب کا نظام اگرچہ بہتر ہے، لیکن جس طرح بارش ہفتے کے روز ہوئی، اتنی بارش کے پانی کی خوش اسلوبی سے آناً فاناً نکاسی اِس نظام کے بس میں نہیں، ظاہر ہے اِس کام میں وقت لگنا تھا سو لگا،بارش جب بھی اِس انداز میں برسے گی اِس طرح کے مسائل تو پیدا ہوں گے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ متعلقہ اداروں نے نکاسی ¿ آب کے انتظامات کس حد تک تسلی بخش کئے ہوئے ہیںاور بے ہنگم رہائشی آبادیاں، جن میں نکاسی ¿ آب کے معقول انتظامات نہیں، کس حد تک اِس صورت کی ذمے دار ہیں؟
نصف صدی پہلے کے لاہور میں اور آج کے لاہور میں زمین آسمان کا فرق ہے، شہر پھیلتا جا رہا ہے، نئی نئی آبادیاں وجود میں آ رہی ہیں، پانی کا روز مرہ استعمال بھی ہزاروں گنا زیادہ ہو گیا ہے، لوگوں نے نالوں کے اوپر چھتیں ڈال کر تعمیرات کر لی ہیں، نالے تنگ ہو گئے ہیں،کہیں کہیں تو یہ اتنے تنگ ہیں کہ معمولی سی نکاسی بھی مشکل سے ہوتی ہے، لیکن بارش اور خصوصاً تیز بارش کی صورت میں پانی روانی کے ساتھ اِن نالوں سے نہیںگزر سکتا،اِس لئے یہ سڑکوں پر اور نشیب میں واقع گھروں میں پھیل جاتا ہے اور لوگوں کے لئے زحمت کا باعث بنتا ہے۔ لاہور کے نواحی علاقوں میں سینکڑوں ایسی آبادیاں بس گئی ہیں، جو کسی زمانے میں آبی گزر گاہ تھیں۔ شالیمار باغ کے عقب کے سارے علاقے میں انواع و اقسام کے باغات اور کھیت ہی کھیت تھے، بارشیں برستیں تو یہ باغات لہلہاتے اور کھیتوں سے طرح طرح کی خوشبوئیں اُٹھتی تھیں، راوی کناروں سے بہہ نکلتا تو پانی اِن کھیتوں میں پھیل جاتا جو فصلوں کی روئیدگی میں مددگار ہوتا، اب مرور ایام کے ہاتھوں یہ باغ کٹ گئے، کھیت کھلیان ختم ہو گئے اور اِن کی جگہ سنگ و خشت کی بے ہنگم عمارتوں نے لے لی، جہاں لاکھوں انسان آباد ہو گئے، یہ آبادیاں کسی ترتیب سے نہیں بنیں، بس کسی ایک جگہ گھر بننا شروع ہو گئے اور بنتے چلے گئے، حتیٰ کہ عمارتوں کے جنگل اُگ آئے، اِن عمارتوں کا کوئی نقشہ نہیں،جس میں بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھا گیا ہو، بس جیسے لوگوں کا دل چاہا انہوں نے تعمیرات کر لیں، اب جب بارش ہوتی ہے تو پانی کا راستہ کون روک سکتا ہے، چنانچہ نتیجہ یہ ہے کہ پانی ہر گلی اور نشیب والے گھروں میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر اپنے وقت کے ساتھ ہی نکلتا ہے۔
 بدقسمتی کی بات ہے کہ اچھی خاصی پوش آبادیوں میں بھی لوگ اِس پہلو کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ مکان کی تعمیر پر کروڑوں لگا دیں گے، لیکن چند لاکھ روپے نکاسی ¿ آب کے سسٹم پر لگاتے ہوئے اُنہیں دُکھ ہوتا ہے نتیجہ یہ ہے کہ غریب غُربا کی بستیوں کے ساتھ ساتھ خوشحال علاقے بھی زیر آب آ جاتے ہیں۔ نکاسی ¿ آب کے ذمہ دار ادارے اِس مقصد کے لئے جو پائپ ڈالتے ہیں اُن کا قطر منظور شدہ سائز سے کم ہوتا ہے۔ تیز بارش کا پانی نکالنے کے لئے تو بڑے سے بڑا پائپ بھی ناکافی ہوتا ہے، لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ جس جگہ6انچ قطر کے سائز کا پائپ ڈالنا منظور کیا گیا وہاں ٹھیکیداروں نے ملی بھگت سے نسبتاً چھوٹے پائپ ڈال دیئے۔ ٹھیکیدار یہ سمجھتے ہیں کہ تیز بارش کون سی روز ہوتی ہے جب ہوتی ہے لوگ رو پیٹ کر خاموش ہو جاتے ہیں اِس دوران ٹھیکیدار اپنے بِل کھرے کر کے کسی دوسرے ٹھیکے میں مصروف ہو جاتے ہیں، اِس لئے پانی کھڑا ہونے کے بعد جو شور مچتا ہے۔ وہ خودبخود تھم جاتا ہے۔ضرورت تو اس امر کی ہے کہ معمول کے ایام میں پورے شہر کے سیور سسٹم کا جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ بڑے پائپ کی جگہ چھوٹے پائپ بچھا کر ٹھیکیداروں نے کہاں کہاں ہاتھ دکھایا ہے؟ لیکن یہ اِس لئے نہیں ہوتا کہ تعمیراتی کام کی نگرانی کرنے والے افسر موقع پر تشریف نہیں لے جاتے اور محض کاغذات کا پیٹ بھر کر مطمئن ہو جاتے ہیں، ظاہر ہے سیوریج کا جو نظام صرف گھروں کے پانی کے اخراج کے لئے بنایا گیا ہو وہ تیز بارشوں کی وجہ سے پیداہونے والے سیلابی ریلے کے پانی کا نکاس کیوں کر کر سکتا ہے؟لاہور کی جو سڑکیں ابھی حال ہی میں تعمیر ہوئی تھیں بارش میں وہاں بھی پانی کھڑا نظر آیا۔ ہمارا عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ ہم سول ورکس کے لئے ساری ذمے داری متعلقہ سرکاری اداروں پر ڈال دیتے ہیں اور شہری عموماً اِس ضمن میں اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے ہیں، جو نئی آبادیاں تعمیر ہوتی ہیں، اُن کی تعمیر کے وقت دیکھا جانا چاہئے کہ بارشوں کی صورت میں پانی کے بہاﺅ کا رُخ کس طرف ہو گا، نکاسی ¿ آب کے لئے بنائی جانے والی نالیاں بارشوں کے پانی کا نکاس تو نہیں کر سکتیں۔ اِس کے لئے علیحدہ بندوبست کرنا ہو گا اور یہ شہریوں کے بھرپور تعاون اور متعلقہ اداروں کے ذمہ دارانہ طرزِ عمل کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر ناقص تعمیرات ہوتی رہیں اور نگرانی پر مامور حضرات اِس سے صرف نظر کرتے رہیں تو یہ کام کبھی بہتر نہیں ہو سکتا۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ تعمیرات کے لئے سخت قواعد بنائے جائیں اور بارشوں کے پانی کے نکاس کو اہمیت دے کر راستے بنائے جائیں، جو سسٹم اِس وقت کام کر رہا ہے یہ جب تک موجود ہے اُس وقت تک بارشوں کی صورت میں وہی کچھ ہو گا جو ہفتے کو ہوا، یعنی سڑکیں جھیلیں بنتی رہیں گی اور گھر پانی میں ڈوبتے رہیں گے۔ ترقی کے سرکاری ادارے چونکہ ذمے داری سے کام نہیں کر رہے اِس لئے ایسے میں لوگوں کی اجتماعی ذمے داری بڑھ جاتی ہے۔ یہ رویہ بھی ترک کرنا ہو گا کہ تیز بارش کون سی روز ہوتی ہے۔ چند گھنٹے یا چند دن کے شور شرابے کے بعد خاموش ہو کر بیٹھے رہنا مسئلے کا حل نہیں، اس کے لئے مسلسل باخبر اور خبردار رہنا ہو گا۔

مزید :

اداریہ -