آخر فوج ہی کیوں۔ ۔ ۔
نمل نامہ (محمد زبیراعوان )ستائیس رمضان المبارک ہے اور آج ہی کے دن پیار ے’ پاکستان‘کے قیام کا اعلان کیاگیاتھا۔ نصف صدی سے زائد عرصہ گزرگیا لیکن ملک کے لیے دن رات کام کرنیوالا کوئی قابل ذکر کردار آج تک پاکستان کو نہیں ملا۔ فوج کا بنیادی کام سرحدوں کی حفاظت ہے اور کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے یا قدرتی آفات کے علاوہ فوج کو کسی دوسرے کام کی دعوت دینا ایسے ہی ہے جیسے آپ شیر کو جنگل سے نکال کر شہر کے چوراہے میں بٹھادیں ۔ بدقسمتی سے لکھناپڑرہاہے کہ ہمارے یہاں ادارے بتدریج تباہی کی طرف گامزن ہیں اور نااہل سربراہان کی وجہ سے کسی کو اپنے اختیارات کا پتہ ہی نہیں ۔ سونے پر سہاگہ ۔ ۔ ۔ اعلیٰ اداروں میں بیٹھے سربراہان کے ذہنوں کی تراش خراش شاید تاحال مکمل نہیں ہوئی اور اپنے آپ کو ہی عقل کل سمجھتے ہیں ۔ الیکشن کمیشن کو دیکھیں تو وہ سپریم کورٹ کے سامنے اپنے آئینی اختیارات کا استعمال کرنے سے قاصر ہوجاتاہے ۔ پولیس کو دیکھیں تو وہ عدالتوں کے آگے بے بس ہیں ، عدالت کی طرف سے جوکچھ حکم ملا، عمل کردیا اور جو نہ ملا ، اپنی طرف سے کچھ نہیں کرنا،ادارے میں تنظیم موجود نہیں۔ ملک میں امن وامان کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر متعلقہ اداروں کو تربیت دیں اور اگر کوئی ادارہ تربیت کے قابل ہی نہیں تو اُس کو ختم کرکے اُس کی جگہ نیا ادارہ تشکیل دیں ۔ سابقہ دور حکومت میں فائربریگیڈ کو ختم کرکے پنجاب میں ریسکیو1122کے نام سے ایک مثالی ادارہ قائم کیاگیا جس کی آج تک کوئی بڑی شکایت سامنے نہیں آئی ۔پاکستان کی مسلح افواج کی قابلیت میں کوئی شک نہیں ، دنیا کی بہترین افواج ہمارے ملک کے ہیرو ہیں جو اپنے چندگنے چنے لوگوں کے علاوہ جمہوریت کے حق میں ہے اور قوم کی ہر مشکل وقت میں مدد کی ، چاہے وہ سیلاب ہوں یا ڈینگی سے اموات۔ ۔ ۔ لیکن اگر ملک کے اندرونی معاملات ہی فوج کو سنبھالنے ہیں تو پھر پولیس کے تین چار فرقے اور دیگرادارے کیوں ؟؟؟ ضمنی انتخابات میں الیکشن کمیشن نے ایک مرتبہ پھر فوج طلب کرلی ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان میں حملے کے بعد جیلوں کی سیکیورٹی سخت کردی گئی اور سنٹرل جیل پشاور پر فوج کے دستے تعینات کردیئے گئے ۔اگر فوج کو غیر ضروری سویلین معاملات میں مداخلت کو میں ”دعوت سزا“دینے کے مترادف قراردوں تو شاید مجھے جمہوریت دشمن کا لقب مل جائے ۔۔۔ ایل ڈی اے پلازہ میں آگ لگ جائے تو وہاںپھنسے لوگوں کو ریسکیو کرنے فوج کو بلایاجاتاہے ، کسی نالے میں کوئی گاڑی گر جائے تو بالآخر تیسرے دن ہمیں عسکری اداروں کے غوطہ خور بلانے پڑتے ہیں ۔ کراچی میں امن وامان کی صورتحال کنٹرول کرنے کیلئے کئی سالوں سے شہر میں رینجرز تعینات ہے ، اگر کوئی شخص رینجرز کے اشارے پر نہیں رکتا اور فائرنگ سے مارا جاتا ہے تو اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج ہوجاتے ہیں ، لیکن اگر وہ بزور بازو نہیں روکتے اوروہی گاڑی بارود سے بھری ہوتو پھر کیاہوگا؟؟ کون ذمہ دار ہوگا جنہوں نے زبردستی نہیں روکی ؟ ہمیں کچھ حدود وقیودمقررکرنا ہوں گی جو بدقسمتی سے تاحال ہوتی نظر نہیں آتیں ۔۔۔