حضرت ابوایوب انصاریؓ کی مسجد میں حاضری کا شرف!
سلطان محمد فاتحؒ کانفرنس کے دوران پروگرام خاصے ٹائیٹ تھے۔ وقفوں کے دوران بھی ترکی، مصر، سوڈان، پاکستان اور ملائیشیا کے مندوبین کی باہمی نشستیں جاری تھیں۔ ایسے میں میری یہ خواہش کہ کسی طرح میزبان رسول حضرت ابوایوب انصاریؓ کی مسجد میں کوئی نماز پڑھ سکوں اور ان کی قبر پر حاضری دے سکوں، پوری ہونے کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ آخر مَیں نے کانفرنس کے پہلے روز عصر سے مغرب تک کے وقفے میں ایک پاکستانی طالب علم عمرفاروق سے کہا کہ وہ کہیں سے گاڑی کا انتظام کرے، تاکہ ہم حاضری کا یہ شرف حاصل کرسکیں۔ الخدمت فا¶نڈیشن پاکستان کے چیئر مین ڈاکٹرحفیظ الرحمن بھی میرے لئے یہ اہتمام کررہے تھے، چنانچہ ان احباب نے پروگرام مرتب کرلیا اور ہم لوگ مغرب سے ذرا قبل ایک گاڑی میں روانہ ہوئے۔ مسجد ہمارے ہوٹل سے قریب ہی تھی۔ جونہی ہم مسجد کی طرف جانے والے بازار میں داخل ہوئے تو سامنے سے مسجد کے مینار نظر آئے۔ عین اسی لمحے مسجد کے میناروں سے مغرب کی اذان گونجی۔ موذن کی آواز میں اس قدر حسن اور سوز تھا کہ اذان سننے کا لطف آگیا۔ ہم باوضو تھے، چنانچہ مسجد میں داخل ہوئے۔ مسجد کا احاطہ اور پوری عمارت بہت صاف ستھری، پُرسکون اور مردوخواتین نمازیوں سے آباد تھی۔ خواتین بالائی منزل کی طرف جارہی تھیں، جبکہ مرد نچلی منزل میں داخل ہورہے تھے۔
مسجد ابوایوب انصاریؓ میں حرمین شریفین کی طرح نمازیوں کے جوتے رکھنے کے لئے مختلف ریک بھی بنے ہوئے تھے اور دروازوں کے ساتھ موم کے لفافے بھی لٹک رہے تھے کہ جو نمازی چاہیں اپنے جوتے لفافے میں ڈال لیں۔ اقامت کہی گئی، صفیں بن گئیں تو امام صاحب نے ترکی اور عربی میں صفیں درست کرنے کی تلقین کی۔ امام صاحب بالکل نوجوان تھے اور بہت خوب صورت آواز کے ساتھ نہایت ٹھیک لب ولہجے میں تمام مخارج ادا کررہے تھے۔ پہلی رکعت میں سورة التین اور دوسری رکعت میں سورة الفیل تلاوت کی گئی۔ نماز کے بعد امام صاحب نے تسبیحات فاطمہ اس انداز میں پڑھیں کہ نہایت خوب صورت لہجے میں تجوید کے ساتھ لا¶ڈسپیکر پر ایک بار سبحان اللہ پڑھا۔ پھرزیر لب 33مرتبہ تسبیح مکمل کرنے کے بعد بلند آواز سے الحمدللہ پڑھا۔ پھر اسی طرح دل میں اس کی تکمیل کے بعد اللّٰہ اکبر پڑھا اور تینوں تسبیحات مکمل کرچکے تو لاالہ الاللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک والہ الحمد وھو علی کل شیءقدیر بلند آواز سے پڑھا اور اس کے بعد دعا کروائی۔ دعا کے بعد تھوڑی سی خاموشی کے بعد انہوں نے درود ابراہیمی بلند آواز میں خوش الحانی کے ساتھ پڑھا۔ اس دوران کچھ نمازی بیٹھے ذکر اذکار اور تسبیحات پڑھتے رہے، جبکہ دیگر نمازیوں نے سنتیں اور نوافل پڑھے اور مسجد سے نکلنے لگے۔ ہم بھی نماز سے فارغ ہوئے تو نمازیوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے باہر نکلے۔
حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مزار پر اس وقت کچھ مرمت کا کام ہورہا تھا، لہٰذا اس کا دروازہ بند کردیا گیا، اس لئے ہمیں کھڑکی میں سے ہی اندر جھانکنے کا اتفاق ہوا۔ وہیں کھڑے ہو کر ہم نے دعائے مغفرت پڑھی۔ جب ہم مسجد کے احاطے سے باہر جانے لگے تو وہاں پر سات، آٹھ سال کا ایک حسین وجمیل ترک بچہ خوب صورت سفید لباس میں ملبوس، سرپر پگڑی باندھے کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ ساتھ دوتین چھوٹے بچے اور بچیاں اور دو تین مردوخواتین بھی کھڑے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس بچے کے ختنے کل ہونے والے ہیں اور یہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے اور اپنی صحت وعافیت کے لئے نمازیوں سے دعائیں لینے آیا ہے۔ مَیں نے بچے او ر اس کے والد سے ہاتھ ملایا، اس کی چھوٹی بہنوں کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کے والدین کی درخواست پر اس کے لئے صحت وعافیت کے لئے دعا کی۔ پھر بچے کا ماتھا چوما اور اس سے اس کا نام پوچھا تو اس کے والد نے بتایا کہ اس کا نام صلاح الدین ہے۔
یہ عجیب حسن اتفاق تھا۔ صلاح الدین ایوبی اگرچہ حضرت ابوایوب انصاریؓ کی نسل سے نہیں تھا۔ وہ تو کرد نسل سے تعلق رکھتا تھا اور اپنے جد امجد ایوب کے نام کی وجہ سے ایوبی کہلاتا تھا۔ یہ بچہ بھی صلاح الدین تھا اور حضرت ابوایوبؓ سے عقیدت ومحبت کی وجہ سے یہاں آیا تھا۔ حضرت ابوایوبؓ زندگی بھر جہاد کے میدانوں میں کارنامے سرانجام دیتے رہے اور صلاح الدین ایوبی نے بھی جہاد کے ذریعے تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ مجھے یہ نام سن کر بڑی خوشی ہوئی۔ اللہ کرے یہ صلاح الدین بھی غازی ومجاہد ایوبی کی طرح ملک وملت کے لئے اثاثہ ثابت ہو۔ ہم وہاں سے نکلے تو ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے بتایا کہ پاکستان کے برعکس یہاں کئی لوگ بچوں کی پیدایش کے ساتھ ہی ان کے ختنے نہیں کراتے ،بلکہ ذرا بڑے ہونے کے بعد کراتے ہیں۔ پھر انہوں نے کئی افریقی ممالک کے بارے میں بھی بتایا کہ وہاں بڑی تعداد میں پیما (PIMA)کے ڈاکٹروں نے نومسلم اور پرانے مسلمان مردوں کے مختلف میڈیکل کیمپوں کے ذریعے ختنوں کے آپریشن کئے۔ ہمارے ترک ساتھی نے ہمیں بتایا کہ ختنہ کرانے سے پہلے ترک والدین اپنے بچوں کو کسی مسجد اور عموماً حضرت ابوایوب انصاریؓ کی مسجد میں لے جاتے ہیں اور باقاعدہ ایک تقریب اور دعا کا اہتمام کرتے ہیں۔
ہم یہاں سے نکلنے کے بعد تھوڑی دور تک بازار میں گئے، دکانوں کی صفائی ، نظافت اور تنوع دیکھ کر طبیعت خوش ہوئی۔ زیادہ خوشی اس بات پر ہوئی کہ کئی دکانیں خواتین کے نقاب، عبا¶ں اور ساتر لباس سے بھری پڑی تھیں۔ ویسے بھی ماحول بہت صاف ستھرا اور درختوں سے پُررونق تھا۔ بازار کی تھوڑی سی سیر کرنے کے بعد ہم لوگوں نے واپسی کا ارادہ کیا۔ جیسا کہ پہلے بھی تذکرہ ہوا، ہالیڈے ان جہاں کانفرنس اور ہمارا قیام تھا، یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ گاڑی میں بیٹھ کر ہم باہر کی طرف جانے لگے تو پارکنگ کنٹرول کرنے والی کمپنی کے ایگزٹ (Exit) بیریئر پر گاڑی روک کر ڈرائیور نے ٹوکن کی فیس ادا کرنا چاہی۔ وہاں بیٹھے ہوئے لڑکے نے گاڑی کے اندر جھانک کر دیکھا۔ مَیں نے جناح کیپ پہن رکھی تھی۔ اس نے ڈرائیور سے ترکی زبان میں کچھ کہا اور بیرئیر اٹھا دیا۔ مَیں نے پوچھا کہ اس نے کیا کہا تو بتایا گیا کہ اس نے پاکستان کے ساتھ جذبہءخیرسگالی کے تحت کہا کہ پاکستانی مہمانوں سے فیس نہیں لیں گے۔ یہ بظاہر چھوٹی سی بات ہے، مگر اس سے پتا چلتا ہے کہ ترک بھائی ہم سے کتنی محبت کرتے ہیں۔
ہم نے واپسی پر اس قلعے کی دیواریں بھی دیکھیں جو سلطان محمد فاتح نے فتح کیا تھا۔ تھوڑا سا آگے بڑھے تو بائیں جانب کی طرف ڈرائیور نے اشارہ کرکے بتایا کہ یہ عدنان میندریس کا مزار ہے او ر اس کے ساتھ ہی ترگت اوزال کا مقبرہ بھی ہے۔ ہم واپس کانفرنس میں پہنچے تو پہلے اختتامی اجلاس شروع ہوچکا تھا۔ کانفرنس سے فارغ ہونے کے بعد نماز عشاءپڑھی، پھر عشائیہ کے لئے ڈائیننگ ہال میں گئے۔ ترک کھانے بہت لذیذ اور ہلکے پھلکے ہوتے ہیں۔ کھانے کے بعد کمرے میں جا کر میٹھی نیند کے مزے لوٹے۔