تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کے بعد؟

تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کے بعد؟
 تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کے بعد؟

  

مئی 2013ء کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی شفاف تحقیقات کے لئے چیف جسٹس جناب ناصر المک کی سربراہی میں قائم کمیشن نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ کمیشن نے عمران خان کے اُن تمام بنیادی الزامات کو مسترد کر دیا جن کی بنیاد پر وہ منظم دھاندلی کا راگ الاپتے رہے۔ (ن) لیگ پر مینڈیٹ چوری کا الزام لگاتے رہے۔ اسمبلیوں کو جعلی اور جمہوریت کو جعلی قرار دیتے رہے۔ در حقیقت یہ الیکشن ویسے ہی تھے جیسے ہوتے چلے آ رہے ہیں سوائے 1977ء کے انتخابات کے جب خود بھٹو حکومت کے مقرر کردہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان نے یہ کہہ کر دھاندلی کا اعتراف کیا تھا کہ ہم نے تو الیکشن کا میلہ سجایا تھا مگر ڈاکو لوٹ کر لے گئے۔ اُس کے بعد ایسی کوئی منظم دھاندلی نہیں ہوئی البتہ کوئی بھی الیکشن ایسا نہیں تھا جو بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں سے پاک ہوتا۔ اس کی وجوہات بڑی سادہ ہیں۔ اس ملک میں آج تک کوئی ادارہ اپنا کام منظم طریقے سے کر ہی نہیں پایا۔ الیکشن کا عمل بڑا جامع ہوتا ہے جو پوری منصوبہ بندی گہری توجہ اور پولنگ سٹاف کی بھرپور تربیت کا متقاضی ہے مگر جب الیکشن آنے پر محکمہ تعلیم کے اساتذہ کو واجبی تربیت اور معاوضے کے عوض پولنگ سٹاف بنا دیا جائے تو پھر یہ توقع کرنا کہ الیکشن کا سارا عمل تکنیکی غلطیوں اور بے ضابطگیوں سے مبرا ہو، عبث ہے۔ اس دوران میں خان صاحب کی بھرپور کوشش رہی کہ وہ الیکشن کی بعض بے قاعدگیوں کو منظم دھاندلی کا رنگ دے کر (ن) لیگ کو مطعون کریں اور بعض خفیہ عناصر کی آشیر باد سے میاں صاحب کی حکومت کو چلنا کریں اور ملک کے سیاسی ماحول میں ایک ایسا خلا پیدا کر دیں جسے ان کی ذات اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے باآسانی پر کرے گی۔

تحقیقاتی کمیشن کوئی معمولی کمیشن نہ تھا بلکہ براہ راست چیف جسٹس آف پاکستان (جن پر خان صاحب نے اپنے گہرے اعتماد کا اظہار بر ملا کیا تھا) کی سربراہی میں قائم ہوا تھا اور تمام سیاسی جماعتیں اس کے قیام اور شفاف ہونے پر متفق تھیں، تحریک انصاف جس نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اُٹھا رکھا تھا کہ اُن کے پاس دھاندلی کے اس قدر ٹھوس ثبوت ہیں کہ تحقیقاتی کمیشن کے فیصلے سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا مگر جب کمیشن کے روبرو ثبوت پیش کرنے کا موقع آیا وہ عدالت میں آئیں بائیں شائیں کر کے رہ گئے۔ محض الزامات کے پلندے کو عدالت ثبوت کیونکر مان لیتی؟؟ کمیشن میں جاکر تحریک انصاف کو پتہ چلا کہ مختلف ویب سائٹس کے جھوٹے سچے صفحات اور ثبوتوں میں بڑا فرق ہوتا ہے لہٰذا پی ٹی آئی کے وکلا نے کمیشن سے دس روز کی مہلت طلب کر لی۔ اس کے بعد تحریک انصاف نے یہ موقف اپنا لیا کہ ثبوت تو تھیلوں میں ہیں، کمیشن نے منتخب حلقوں کے تھیلے بھی کھلوا لئے، تھیلوں کے کھلنے سے یہ پتہ چلا کہ بے ضابطگیاں ہوئی ہیں مگر اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف کے دھاندلی کے الزامات کا پول بھی کھل گیا۔ الیکشن ریکارڈ کی چھان بین سے ایسی کوئی چیز سامنے نہ آئی جس سے یہ ثابت ہوتا کہ مئی 2013ء کے انتخابات میں عوامی مینڈیٹ چوری کیا گیا اور نوازشریف کے ایما پر آر اوز نے منظم دھاندلی کی تھی۔

سوال یہ ہے کہ منظم دھاندلی کا تصور پھر اتنا ابھر کر سامنے آیا کیسے؟؟ در اصل خان صاحب کو ان کے سرپرستوں نے مروایا۔ عام انتخابات سے پہلے خان صاحب کو یہ یقین دلا دیا گیا تھا کہ بس الیکشن ہونے دیں، اگلے وزیر اعظم وہی ہوں گے۔ اس کا اظہار خان صاحب ملک اور بیرون ملک بھی کرتے رہے۔ خان صاحب کے الیکشن سے قبل کے انٹرویز دیکھ لیجئے موصوف لکھ کر دینے کو تیار تھے وہ الیکشنز میں کلین سویپ کریں گے۔ حتیٰ کہ جب اپنے بیٹوں کو ملنے گئے تو وہاں بھی وفور جذبات میں کہہ بیٹھے کہ اگلی دفعہ اُن کے بیٹے انہیں بحیثیت وزیر اعظم ملیں گے،مگر:

’’حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مر جھا گئے‘‘

سونے پر سہاگہ یہ کہ ان کے بڑے بڑے جلسے جن میں ووٹر کم اور سپورٹر زیادہ تھے، میڈیا نے صرف ریٹنگ کے چکر میں خوب بڑھا چڑھا کر پیش کئے جن سے خان صاحب کو یہ یقین کامل ہو گیا کہ اُن کے کلین سویپ کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ اگر الیکشن سے پہلے ہونے والے سروے اور عالمی اداروں کی جانب سے کئے جانے والے تجزیوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ الیکشن کے نتائج تقریباً وہی تھے جو ان سروے اور تجزیوں میں بیان کئے گئے۔ ان نتائج نے خان صاحب کے سارے خواب چکنا چور کر دیئے۔ پہلے تو نتائج کو تسلیم کر لیا۔ وزیر اعظم نوازشریف کو مبارکباد بھی دی مگر پھر دھاندلی کا راگ الاپنے لگے۔ یہ راگ کبھی دھیمے اور کبھی تیز سروں میں جاری رہا۔ اس دوران میں خان صاحب نے بنی گالا میں اپنی رہائش گاہ پر میاں صاحب کا استقبال بھی کیا۔ اس کے دو تین ماہ بعد دھاندلی کے نام پر ایسا احتجاج شروع کیا جو 126 روز کے دھرنے پر منتج ہوا۔ اس طویل دھرنے سے کچھ حاصل ہوا یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے مگر اس سے خان صاحب کی شخصیت کے وہ پہلو اُبھر کر سامنے آئے جنہوں نے اُن کے ایک قومی لیڈر ہونے کی بھرپور نفی کی۔ جو لب و لہجہ وہ کنٹینر پر کھڑے استعمال کرتے رہے وہ کسی طور بھی ایک لیڈر کے شایان شان نہیں تھا۔

اختلاف اُسے زیب دیتاہے جو اعتراف بھی کرے مگر افسوس کہ خان صاحب کو اپنے سوا کسی کا اعتراف کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ دارالحکومت کو 126 روز تک محاصرے میں رکھنا، سپریم کورٹ اور پارلیمینٹ جیسے محترم اداروں کے راستے پر قبضہ جمانا، عدالت عظمیٰ کے جنگلوں پر کپڑے دھو کر سکھانا، پی ٹی وی پر دھاوا بول کر اُس کی نشریات بند کرنا یہ سارے اقدامات دنیا بھر میں ہماری جگ ہنسائی کا باعث بنے 126 روز تک بے معنی تقاریر، مولا جٹ کے انداز کی بڑھکیں، عوام کو سرکاری بل اور ٹیکس نہ دینے پر اکسانا، نوازشریف سے استعفیٰ کا مطالبہ اور سول نافرمانی جیسی احمقانہ باتیں، یہ سب ہوا صرف اور صرف عوام کا مینڈیٹ چوری ہونے کے نام پر مگر جب تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کی صورت میں دھاندلی کی حقیقت عیاں ہوئی تو رتی بھر ندامت نہیں کہ 126 روز تک ملک و قوم کا وقت اور پیسہ برباد کیا۔ الٹا نواز شریف سے ہی مطالبہ کر ڈالا کہ دھرنے کے ذمہ دار وہ ہیں لہٰذا وہ معافی مانگیں۔ کمیشن کی رپورٹ کو بادل نخواستہ قبول تو کر لیا مگر ساتھ ہی اظہار مایوسی بھی کر دیا کیونکہ ایک دفعہ پھر خان صاحب کے سپنوں کا محل زمین بوس ہو گیا۔ خان صاحب حسب عادل یہ گماں کئے بیٹھے تھے کہ انہوں نے کمیشن میں جو ایک لاکھ سے زائد دستاویز پر مشتمل ویب سائٹس کے صفحات، اخباری تراشے اور اداروں کی خامیاں بیان کرتے صفحات پیش کئے ہیں، کمیشن انہیں ثبوت مانتے ہوئے فوراً حکومت کو چلتا کر دے گا۔ لگتا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد دھاندلی کے نام پر بے وقت کی یہ راگنی دوبارہ سننے میں آئے گی۔

الیکشن کو لے کر خان صاحب جو سوالات اُٹھاتے رہے ہیں اُن کا تعلق اداروں کے اپنا کام ٹھیک سے نہ کرنے اور مس مینجمنٹ سے ہے جس میں فارم 14 اور 15 کا غائب ہونا، بعض حلقوں میں ووٹوں کا ریکارڈ نہ ہونا، انگوٹھوں کے نشانات قابل تصدیق نہ ہونا اور تھیلوں کا کھلا ہونا شامل ہے اور ان بے قاعدگیوں کا ذمہ دار کسی طور بھی نوازشریف یا (ن) لیگ کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ کمیشن کی اس رپورٹ کے بعد (ن) لیگ کی جانب سے کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا اور یہ بہت درست بھی ہے۔ دھرنے کے دوران بھی صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے والے نوازشریف نے بہت نپا تلا رویہ ظاہر کیا۔ سب کچھ بھلا کر آگے بڑھنے کی بات کی۔ تحریک انصاف پر تنقید تو دور کی بات، قوم سے خطاب کے دوران تحریک انصاف اور عمران خان کا نام تک نہ لیا۔ مگر خان صاحب نے جو ردعمل دیا ہے وہ خان صاحب کا سیاسی قد اور کم کئے دیتا ہے۔

مزید :

کالم -