مشورہ مفت ہے حضور ، قبول کیجیے۔۔
گمان یہی تھا کہ حکومت اور اس کے ہمنوا تحریک انصاف کے اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کے معاملے میں محض 'چیزے' لے رہے ہیں، لیکن جس مہارت سے مولانا اور متحدہ کے دوست شاہ صاحب اور ان کے باقی اراکین اسمبلی کو زچ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں اس سے اور کچھ ہو نہ ہو کپتان بذات خود خاصے برہم ہیں۔ مناسب ہوتا کہ وہ اس مدعے پر برہمی کیساتھ لب کشائی نہ کرتے کہ شاید یہ سب ان کے شان شایان نہ تھا۔(ویسے تو ان کے شان شایان بہت سی اور چیزیں ہر گزنہ تھیں لیکن کیا کیجیے کہ دل کے ہاتھوں مجبور ہونے میں بھلا دیر ہی کتنی لگتی ہے) شاہ صاحب اسمبلی کے معاملات کو مناسب انداز میں ڈیل کر رہے تھے ایسے میں خان صاحب کا یہ فرمانا کہ میں پارٹی اراکین کو مشورہ دوں گا کہ اب اسمبلی نہ جائیں اور یہ کہ اگر ڈی سیٹ کرنا ہے تو شوق سے کریں میں خود انتخابی مہم چلاوں گا۔ وغیرہ وغیرہ کی ضرورت نہ تھی۔ پنجابی زبان میں 'چیزہ' لینے کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے کہ سر تا پا فریق مخالف کو برہم کر دیا جائے اور وہ بھی اس انداز میں کہ زیادہ کوشش درکار نہ رہے۔
سیاست عجب کھیل کا نام ہے، شاید یہ واحد کھیل ہے جس میں جیت ہار اور ہار جیت میں بدلنا ایک دوراندیش لیڈر کی پہچان ہوتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر کپتان مولانا اور متحدہ کی شرارت پر سیخ پا ہونے کی بجائے چہرے پر تبسم سجائے کہتے کہ جناب آپ شوق سے ہمیں ڈی سیٹ کیجیے، سر آنکھوں پر، لیکن پھر ہم ضمنی نہیں بلکہ ری الیکشن مانگیں گے۔ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے ہنگام حکومت اور تحریک انصاف کے معاہدے کی شق نمبر چار اعشاریہ ایک اور چار اعشاریہ دو میں واضح لکھا ہے کہ منظم دھاندلی ثابت ہونے کی صورت میں اور ثابت نہ ہونے کی صورت میں کیا ہو گا۔ منظم دھاندلی ثابت نہ ہونے کی صور ت میں تحریک انصاف اسمبلیوں میں واپس آئے گی اور اپنے تمام تر الزامات واپس لے گی۔ اسی نقطے کے تحت تحریک انصاف نے انکوائری کمیشن کی رپورٹ قبول کی (گو کہ خان صاحب نے اس پر تحفظات کا اظہار کرتے کرتے یہ بھی کہہ دیا کہ انہیں بحیثیت انسان اس رپورٹ سے خاصی تکلیف پہنچی ہے۔ وغیرہ وغیرہ) اور اسمبلیوں میں واپسی پدھاری۔ یہی نہیں بلکہ ان کے اراکین کی تنخواہوں کے چیک بھی انہیں ارسال کر دئیے گئے۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی واپسی اور ان کے اراکین کو تنخواہوں کی وصولی یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ قانونی اور آئینی طور پر اسمبلی کے فعال رکن ہیں۔ اگر ایسا نہیں تھا تو اسپیکر قومی اسمبلی نے انہیں اسمبلی میں قدم رکھنے کی اجازت ہی کیوں دی؟ تنخواہوں کی وصولی کس قانون کے تحت کروائی گئی۔۔؟ اگر اس کے باوجود جناب اسپیکر تذبذب کا شکار ہیں تو یقین جانئے ایک تحریک تو خود موصوف کے خلاف بھی آجانی چاہیے کہ انہوں نے کس قانون کے تحت چالیس دن سے زائد غیر حاضر رہنے والے اراکین کو اسمبلی میں آنے کی اجاز ت اور پھر تنخواہ تک بھی ادا کر دی؟
رہی بات آئین کی تو یاد رہے کہ اسی دلیل کے تحت چالیس دن سے زائد غیر حاضری پر رکنیت خارج کرنا لازم نہیں، ہاں ایسا کیا جاسکتا ہے، ایسا کرنا لازم ہر گزنہیں۔ اور اگر ایسا قدم اٹھانا ناگزیر ہے تو پھر اس کا سادہ لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ حکومت اور اس کے ہمنوا جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لیے منظور شدہ معاہدے سے انخراف کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں تحریک انصاف انکوائری کمیشن کی رپورٹ مسترد بھی کر سکتی ہے اور ری الیکشن کا مطالبہ بھی دہرایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سب کے لیے قدرے 'فنکارانہ' سیاست کی ضرورت ہے نا کہ جذبات سے بھر پور بیانات کی۔
دھرنے کے ہنگام کپتان نے مولانا کو آڑے ہاتھوں لیا، شاید ہی ان کے میراتھون تقریری سلسلے میں کوئی ایسا دن گزرا ہو جب انہوں نے مولانا کو 'سلیس اردو' میں یاد نہ کیا ہو۔۔ لیکن وہ شاید یہ بھول گئے تھے کہ مولانا راج دھانی اور راج نیتی کے پرانے کھلاڑی ہیں، حضرت مولانا اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں اور پھر تہتر کے آئین کی رو سے لوہا گرم ہوتے ہی وار کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اور اب ان دنوں مولانا اپنے فن کا مظاہرہ بلا خوف و خطر فرما رہے ہیں۔ ایسے میں آزاد مبصر ان کے فن سے مخطوظ ہوئے بغیر نہیں رہ پا رہے۔ رہی بات حضرت مولانا کی بدھ کے روز اسمبلی میں دھواں دار تقریر کی تو یہ کہانی پھر سہی۔ کیونکہ مولانا کی تقریر ایک مکمل تحریر کی متقاضی ہے۔ قصہ مختصر یہی ہے کہ پارلیمانی سیاست اور ڈی چوک کی سیاست میں کیا فرق ہے یہ مولانا کی تقریر سے واضح ہو گیا ہے۔
دیانت، صداقت، جوش ، جنون اپنی جگہ لیکن سیاست کے اکثر پیچ جوش سے نہیں ہوش سے ڈالے جاتے ہیں، کپتان کو یاد ہو گا کہ مولانا اکثر کپتان کے حملوں کا جواب دینے کے بجائے صحافیوں کے سوالات اپنی مخصوص مسکراہٹ کی نظر کر دیا کرتے تھے۔ مولانا کے ہاں یہ مخصوص مسکراہٹ اور مہارت اب بھی برقرار ہے، فرق صرف یہ ہے کہ کپتان کی مسکراہٹ غائب ہو چکی ہے، اور اس کی جگہ اب برہمی اور بے بسی نے لے رکھی ہے۔ دعا یہی ہے کہ یہ کیفیت عارضی ثابت ہو۔ کپتان ہمیشہ ان فارم ہی اچھے لگتے ہیں۔ آوٹ آف فارم یا آف کلر کپتان جتنا بھی لیجنڈ ہو زیادہ عرصہ ٹیم کو نہیں سنبھال سکتا، پیچھے بیٹھے کھلاڑی اور منیجرز انگلیاں اٹھانے میں دیر نہیں کرتے۔ اور اس سب کا اندازہ کپتان سے زیادہ بھلا کسے ہو سکتا ہے؟
نوٹ۔ اس تحریر کا مولانا کی مدح سرائی سے کسی قسم کو کوئی تعلق نہیں۔ سیاست کے داو پیچ سمجھنے کے لیے ایسی مثالیں بسا اوقات ناگزیر ہو جایا کرتی ہیں۔ کپتان کی خدمت میں مشورہ البتہ مفت ہے۔ نسخے پر عمل درآمد کے سائیڈ افیکٹس مکمل طور پر معدوم ہیں۔ شکریہ