سندھ میں قیادت کی تبدیلی؟
مراد علی شاہ کے وزیر اعلیٰ سندھ بننے کے ساتھ ہی میڈیا میں یہ بحث چل رہی ہے کہ سند ھ میں آٹھ سال کے بعد وزارت اعلیٰ میں کی جانے والی تبدیلی کیا سندھ کے لئے اچھے ثمرات لائے گی؟قائم علی شاہ کے مقابلے میں مراد علی شاہ کسی حد تک جوان ہیں اور امریکہ سے تعلیم بھی حاصل کرچکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بنتے ہی جب مراد علی شاہ نے سکیورٹی میں کمی کرنے، وقت پر اپنے دفتر آنے ، سرکا ری اہلکاروں کو بھی وقت کی پابندی کرنے اور کابینہ کے وزرأ کے لئے واٹس ایپ گروپ تشکیل دینے جیسے اقداما ت کئے تو میڈیا کے بڑے حصے نے ان کے اقدامات کو سراہا، مگر یہاں پر بنیا دی سوال یہی ہے کہ کیا سندھ میں قیادت کی تبدیلی سے سندھ کو ان گنت مسائل سے نجات مل جا ئے گی؟کیا سندھ میں رہنے والا ایک عام انسان کسی حقیقی تبدیلی کو محسوس کرے گا؟ ۔۔۔اس انتہا ئی اہم سوال کے جواب کے لئے ہمیں سندھ کے سما جی اور سیا سی حقا ئق سے رجوع کر نا ہوگا۔ سیاسیات کا ایک اوسط درجے کا طالب علم بھی جا نتا ہے کہ اندرون سندھ آج بھی کلا سیکل اور میکینیکل معنوں میں جا گیرداری نظام کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔آج بھی سندھ کی سیاست چند جا گیرداروں ، وڈیروں اور پیروں کے گرد گھومتی ہے۔ایک ہی سیا سی خاندان کے افراد وزارتوں پر بھی فا ئز ہیں اور اسی خاندان کے افراد بیوروکریسی میں بھی موجود ہیں۔ جاگیرداری نظام میں میرٹ، استعداد کار، ذہنی ترقی، اہلیت اور ایمانداری کی کو ئی گنجا ئش نہیں ہو تی۔یہ طبقہ عوامی مسائل اور تکا لیف پر انتہا ئی بے حس ہو تا ہے۔
دنیا بھر کے ما ہرین سیاسیات اس امر پر اتفاق کرتے ہیں کہ جاگیر داری نظام میں جمہو ریت کے ثمرات کبھی بھی سامنے نہیں آتے۔اس با ت سے یہ تا ثر لینا سراسر غلط ہو گا کہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں دودھ اور شہد کی نہر یں بہہ رہی ہیں اور راوی چین لکھتا ہے۔ یقیناً ایسا نہیں ہے۔پنجاب میں نوجوان ڈگریاں ہو نے کے با وجود بے روزگار ہیں اور ہاتھوں میں ہتھیا ر پکڑ کر چوریاں اور ڈاکے ڈالنے پر مجبورہیں۔پنجاب کا بڑھتا ہوا کرائم ریٹ اس بات کا ثبوت ہے۔ ایسے واقعات بھی موجود ہیں جہاں ماں اپنے بھوکے بچوں کو اپنے ہا تھوں سے مارنے پر مجبور ہے اور لوگ غربت کے با عث خود کشیاں بھی کر رہے ہیں۔ یہاں کی سیاست میں بھی برادری ازم کے ساتھ ساتھ کالے دھن کا استعمال عام ہے،مگر پنجاب ، خاص طور پر شما لی اور وسطی پنجاب، خیبر پختونخوا کے علاقے کلاسیکل معنوں میں جا گیرداری نظا م کی گرفت میں نہیں ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کی سیاست میں کسی حد تک کارکردگی کا پہلو بھی انتخا بی جیت یا شکست میں ایک کردار ادا کر تا ہے۔اے این پی نے 2008ء سے 2013ء تک خیبرپختونخوا میں حکومت کی۔غیر جانبدارانہ رپورٹس سے ثا بت ہوا کہ اے این پی کی حکومت کی کا رکر دگی انتہا ئی خراب رہی اور اس دور میں کرپشن کے بھی نئے نئے ریکارڈز قا ئم کئے گئے۔اے این پی کو اس کا نتیجہ 2013ء کے انتخا با ت میں بد ترین شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا۔اسی طرح 2013ء کے انتخا با ت میں پی پی کی وفا قی حکو مت کی ریکا رڈ توڑ کر پشن کے ساتھ ساتھ عمومی تا ثر یہ بھی تھا کہ پنجا ب میں بدترین لوڈشیڈنگ کی ذمہ دار پی پی کی وفا قی حکومت ہی ہے۔نتیجے کے طور پر پی پی کا پنجاب میں تقریباًصفا یا ہو گیا،مگر انتخا بات میں اندرون سندھ میں کار کردگی کا عمل نہ ہو نے کے برابر رہا۔
پاکستان ہی نہیں،عالمی ما لیا تی اور تحقیقا تی اداروں کی رپورٹس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ سندھ میں 2008ء سے 2013ء تک قائم علی شاہ کی وزارت اعلیٰ کے دوران سند ھ میں بدترین کر پشن ہو ئی۔سرکا ری ٹھیکوں کوکمیشن لے کر نیلام کیا گیا۔ صوبا ئی فنڈز میں بڑے پیما نے پر غبن ہو ئے، تعلیم اور صحت جیسے شعبوں کے لئے مختص رقوم کو لو ٹا گیا،سر کا ری نوکریوں کے لئے وزرا ء اور ان کے سیکرٹری رشوتیں لے کر لوگوں کو بھر تی کر تے رہے، میرٹ اور اہلیت کو بری طرح سے پاما ل کیا گیا۔اس سب کے با وجود 2013ء کے انتخابات میں ایک مر تبہ پھر یہی جا گیر دار، وڈیرے اور سجا دہ نشین جاگیر داری نظام کے با عث منتخب ہو کر اقتدار پر فا ئز ہو گئے ۔ صوبے میں بد انتظامی کی صورت حال جوں کی توں برقرار رہی اوروڈیرے دونوں ہاتھوں سے سندھ کا خزانہ لوٹ لوٹ کر دوبئی اور برطانیہ میں جائیدادیں خرید کر عیش و عشرت کی زندگی گزارنے لگے۔۔۔ اگر سندھ کے اہم سیاسی خاندانوں، وڈیروں اور جا گیرداروں، جن کی اکثریت اس وقت سندھ اسمبلی میں بیٹھی ہے، کو دیکھا جائے تو ان میں سے اکثریت ایسے خاندانوں کی ہوگی،جن کے بڑے بوڑھے 1849ء میں سندھ کو فتح کرنے والے سر چارلس نپیئر کے دربار میں کورنش بجا لائے۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو سندھ میں جا گیرداری نظام کا کلاسیکل ظہو ر اسی وقت ہوا، کہ جب برطانوی دور کے آغاز میں برصغیر کے دیگر علاقوں کی طرح سند ھ میں بھی لگان وصول کرنے والے طبقات کو کاشتکار یا ز مین دار قرار دے دیا گیااور برطانوی سامراج سے وفا داری کے عوض بڑی بڑی جاگیریں عطاکی گئیں۔سندھ میں جاگیرداری نظام کو اس وقت بھی بھرپور تقویت ملی جب 1930ء کی دہائی میں جامبرو کینال سے سکھر بیراج تک آبپاشی کا انتظام کرکے برطانوی سامراج کے حامی کاشتکاروں سمیت اس وقت کے ریٹائرڈ فوجی اور سول افسروں کو بھی بڑی بڑی جا گیریں عطا کی گئیں۔اسی طرح قیام پا کستان کے بعد وڈیروں کا ایسا نیا طبقہ بھی وجود میں آیا جنہوں نے تقسیم کے بعد ہندوؤں کی املاک کی لوٹ کھسو ٹ اور جھوٹے کلیموں کے ذریعے زمینیں حاصل کیں۔ جاگیرداری نظام کے باعث اصولی طور پر یہ کہنا بھی غٖلط ہو گا کہ سندھ کی ابتر صورت حال کی ذمہ دار پیپلز پارٹی ہی ہے۔ 1937سے لے کر اب تک کا جا ئزہ لیا جا ئے تو معلوم ہو گا کہ سندھ میں مسلم لیگ (آزادی سے پہلے اور بعد) کے 13 وزرائے اعلیٰ نے تقریباً بائیس سال تک سندھ میں حکومت کی۔جبکہ پی پی کے 6وزرائے اعلیٰ نے کل ملا کر انیس سال کی حکومت کی، جو اب بھی جا ری ہے، جبکہ باقی سالوں میں فوجی آمریتیں یا اتحادی حکومتیں ہی سندھ پر حکو مت کرتی رہیں۔
1937ء سے لے کر اب تک سندھ میں جو بھی حکومت رہی اسے اپنے اقتدار کے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے جا گیرداروں، وڈیروں اور پیر وں کی آشیر باد بھی حاصل کرنا پڑی۔ یقیناًاس وقت سندھ کے جاگیر داروں کی اکثر یت کا تعلق پی پی سے ہی ہے،مگر سندھ میں جب بھی پی پی مخالف جا گیر داروں کو حکو متیں بنا نے کا مو قع ملا، تب بھی کر پشن، بد انتظا می، بے حسی اور نا اہلی کے یہی مناظر دیکھنے کو ملتے تھے۔کیا سندھ کے لئے درد دل رکھنے والا کو ئی بھی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ غوث علی شاہ، جام صادق علی، لیا قت جتوئی اور اربا ب غلام رحیم جیسے پی پی مخا لف جاگیر دار وزرا ئے اعلیٰ کے ادوار میں سند ھ کو گڈ گورننس ملی؟سندھ کی سیا ست پر نظر رکھنے والا کو ئی بھی شخص جا نتا ہے کہ ان ادوار میں بھی انیس بیس کے فرق کے ساتھ کرپشن، بد انتظامی اور عوامی مسائل کی با بت غفلت کی یہی صورت حال تھی۔ لوٹ کھسوٹ پر مبنی استحصا لی نظام کو برقرار رکھنے کے لئے چند جا گیر دار اور وڈیرے جا گیر داری نظام کی بدولت انتخا با ت کو سیڑ ھی بنا کر اقتدار تک پہنچ جا تے ہوں تو کیا ایسے نظام کو جدید معنوں میں جمہوری قرار دیا جا سکتا ہے؟سیاسیات اور تاریخ کا ایک بڑا درس یہی ہے کہ جا گیر داری نظام اور جمہوریت کبھی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔کیا دنیا کے کسی ایک بھی ایسے ملک کی مثال پیش کی جا سکتی ہے کہ جہاں حقیقی معنوں میں جمہوری نظام بھی فعال ہو ،مگر اس کے ساتھ ساتھ جاگیردار ہی حکومت پر قابض ہوں؟یقیناًآج کی دنیا میں اس طرح کی مثال پیش کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔اس سارے تجزیے سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ اقتدار ہمیشہ اس نظام کوتحفظ فراہم کرتا ہے،جس نظام سکی کوکھ سے اس اقتدار نے جنم لیا ہو، اس لئے جاگیر داری جیسے پسماندہ اور دنیا بھر میں متروک شدہ نظام کے ہوتے ہوئے سند ھ میں محض قیادت کی تبدیلی سے بہتری کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔