آمریت کے کھوتے
آمریت کے کھوتے جب جمہوریت کی کھوتی کو دولتیاں مارتے ہیں تو یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ یہ کھوتی کتنی کمزور، لاغر اور منحنی ہے اور وہ خود جمہوری کہلائے جانے والے دور میں بھی کتنے مضبوط، طاقت ور اور پھِٹے ہوئے ہیں، جسے وہ جمہوریت کی کھوتی کہتے ہیں اسے ہر دفعہ اس عمر میں ہی ذبح کروا دیتے ہیں جب اس کی عمر ابھی بوجھ اٹھانے، جمہوریت کے فوائد ، فضائل اور برکات نام کے بچے جننے کی نہیں ہوتی، آمریت کے کھوتے اسی جرم میں بے چاری کھوتی کوجوتے مارتے ہیں اور پھر تین سے چار مرتبہ ایسا ہو ا کہ انہوں نے اس بے چاری کی جان ہی لے لی، پھرہر مرتبہ آمریت کے جادوگر کھوتوں نے جمہوریت کی ایک نئی کھوتی پیدا کی اور اسے پیدا کرتے ہی دوبارہ جوتے مارنے شروع کر دئیے۔ جمہوریت کی کھوتی کا المیہ یہ ہے کہ آمریت کے کھوتے اسے مارتے بھی ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے۔
جمہوریت کی کھوتی کو آمریت کے کھوتوں نے تازہ ترین جوتے لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے125 بارے ووٹوں کی ایک مبینہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد مارے ہیں۔ اس حلقے سے مسلم لیگ نون کے خواجہ سعد رفیق رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور وزیر ریلوے بنائے گئے، وہ اس ریلوے کو نئی زندگی دے رہے ہیں جس کا لہو آمریت کے کھوتوں کے مالکوں نے خوب چوسا، ایک وقت یہ بھی آیا کہ پاکستان میں یک جہتی ، اتحاد اور ثقافت کی چلتی پھرتی علامت کو بند کرنے بارے بھی سوچا جانے لگا اور ریلوے کی زمین پر گالف اینڈ کنٹری کلب قائم کرنے کے نام پر اس کھوتی کا دودھ اس طرح چوسا گیا کہ چوسنے والوں نے اس کا لہو تک چوس ڈالا۔ بات اس حلقے کی ہورہی ہے جس کے ستائیس فیصد حصے میں ڈیفنس اور کینٹ جیسی پوش جبکہ ستر فیصد سے بھی زائد مڈل اور لوئر مڈل کلاس آبادیاں ہیں۔ مذکورہ حلقے میں کل رجسٹرڈووٹروں کی تعداد چار لاکھ 29ہزار 485 ہے، عام انتخابات میں یہاں دو لاکھ 17ہزار762 ووٹ کاسٹ ہوئے، چار ہزار199 موقع پر ہی مسترد ہوئے جبکہ دو لاکھ 17ہزار 762 کو درست قرار دیا گیا۔ یہاں سے مسلم لیگ نون کے خواجہ سعد رفیق نے ایک لاکھ 23ہزار چارسوسولہ416، تحریک انصاف کے جناب حامد خان نے 84ہزار495اور پیپلز پارٹی کے محترم نوید چودھری نے چھ ہزار152 ووٹ حاصل کئے، باقی16 امیدوار ان سے بھی بہت پیچھے رہے اور ضمانتیں تک ضبط کروا بیٹھے۔
نادراکی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ حلقے میں ایک لاکھ 49ہزار138 ووٹوں کی تصدیق انگوٹھوں کے نشانات واضح نہ ہونے کے باعث نہیں ہو سکی،سات ہزار892ووٹوں کی تصدیق دیگر وجوہات کی بنیاد پر نہ ہو سکی مگر تصدیق نہ ہونے کے باوجود ان ووٹوں کو جعلی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ آپ کسی بھی ایسے دفتر میں کام کرتے ہیں جہاں بائیو میٹرک سسٹم کے تحت حاضری لگتی ہے، آپ وہاں کے باقاعدہ ملازم ہیں اور روزانہ حاضری لگاتے ہیں مگر اکثر وبیشتر ایسا ہوتا ہے کہ مشین انگوٹھا ثبت کرنے پر آپ کو پہچاننے سے انکار کر دیتی ہے ، آپ کو دوسری، تیسر ی اور چوتھی کوشش کرنا پڑتی ہے ، مشین کے تصدیق نہ کرنے پر آپ جعلی ملازم اور آؤٹ سائیڈرقرار نہیں پاتے ۔ اسی طرح اگر بیلٹ پیپر پر لگے ہوئے انگوٹھے کے نشان کو نادرا کی مشین شناخت نہیں کرر ہی تو اسے جعلی نہیں کہا جا سکتا ، اس میں اس سیاہی کا نقص بھی ہو سکتا ہے جسے استعمال کیا گیا اور اس سسٹم کا مسئلہ بھی ہو سکتا ہے جسے استعمال کیا جا رہا ہے ۔یہاں چار ہزارکے قریب ووٹروں کے شناختی کارڈ نمبروں کا غلط اندراج ہوا۔ 57 ہزار ووٹوں کو درست قرار دیا گیا جو کل کاسٹ ہونے والے ووٹوں کا محض ایک چوتھائی بنتے ہیں، ہاں،چار سو کے قریب ان افراد کوزیادہ یقین کے ساتھ فراڈ کہا جا سکتاہے جنہوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ ووٹ ڈالے۔
تحریک انصاف کے دوستوں نے اس انتخاب کو چیلنج کر دیا اور اس کے بعد آمریت کے کھوتوں کی طرف سے جان لیوا دولتیاں شروع ہو گئیں جو اب تک جاری ہیں۔ ایک زورداردولتی یہ ماری جاتی ہے کہ مسلم لیگ نون نے دھاندلی کی۔ کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ خواجہ سعد رفیق نے اپنے حق میں اپنے ووٹ سمیت تمام ایک لاکھ 23ہزار416 ووٹ ہی جعلی کاسٹ کئے تو اس کے باوجود 33ہزار416 ووٹ مزید ایسے ہیں جو جعلی قرار پا رہے ہیں۔ اب اگر یہ جعلی ہیں تو پیپلزپارٹی کے امیدوار کے چھ ہزار اور تحریک انصاف کے امیدوار کے بھی پچیس ، تیس ہزارووٹ جعلی قرار پاتے ہیں اور اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ مسلم لیگ نون کی اس حلقے میں مقبولیت ہے جو بعد ازاں بلدیاتی انتخابات میں بھی کلین سویپ کے ذریعے ثابت ہوئی تو پھر دولتی اور جعلی ووٹ دونوں آدھے کر لیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا سعد رفیق نے باقی امیدواروں کے حق میں بھی ہزاروں جعلی ووٹ ڈلوائے، آخری منطقی سوال یہ ہے کہ اگر وہ تمام ووٹ جعلی تھے تو پھر اصلی ووٹ کہاں گئے۔ یہاں یہی بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے کہ تصدیق نہ ہونے کے باعث ووٹ کوجعلی نہیں کہا جاسکتا، بالکل ایسے ہی جیسے کسی شخص کی جنم پرچی کی بلدیہ سے تصدیق نہ ہو تو اسے زندہ اور جیتا جاگتا آدمی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جائے۔
احتساب وہ جال ہے جس میں ہمیشہ جمہوریت کی کھوتی کوپھنسایا جاتاہے اور پھر اس میں صرف وہی مچھلیاں پھنستی اور پھڑکتی ہیں جو آمریت کے سمندر میں غوطے لگانے کو تیار نہیں ہوتیں ورنہ ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ کسی انقلاب میں احتساب نہیں ہوا، احتساب ہوا تو صرف جمہوری اور انتخابی عمل کے ذریعے ہوا ، پیپلزپارٹی اپنی بیڈ گورننس اور کرپشن کی وجہ سے ایک صوبے تک محدود ہو گئی اور اب اسی احتساب کو معتوب اور مشکوک بنایا جا رہا ہے یہ ایک عجیب وغریب قسم کی دولتی ہے کہ جمہوریت کو آمریت کے ذریعے درست کیا جا سکتا ہے۔ یہ مریض کا وہ علاج ہے جو عطائی معالج اسے ہلاک کر کے کرنے کا نسخہ دیتے ہیں۔ان معالجوں کی چرب زبانی ایسی ہے کہ وہ زہر کا علاج سانپ کے کاٹے سے کرنے کا کہتے ہیں اور لوگ واہ واہ کرنے لگتے ہیں۔میں تحریک انصاف کے اس مطالبے کی پوری طرح حمایت کرتا ہوں کہ انتخابی نظام کی اصلاح ہونی چاہئے۔ تمام حلقوں میں جعلی ووٹوں کا خاتمہ ہونا چاہئے مگر سوال یہ ہے کہ اس کے لئے برپا کی جانے والی تحریک نواز شریف کو اس نعرے کی آڑ میں اقتدار سے نکالنے کی کوششوں میں ناکام ہونے کے بعد کہاں گئی۔ مجھے تو اب محترم اسحاق ڈار کی قیادت میں قائم انتخابی اصلاحات کے لئے قائم لمبی چوڑی پارلیمانی کمیٹی کی خبریں بھی کبھی کبھار اور چھوٹی موٹی ہی نظر آتی ہیں جن کی خاطر کبھی آسمان کو زمین پر اتار لیا گیا تھا،ہاں، اب جمہوریت کے پرانے شکاری ایک نئے جال کے ساتھ آ گئے ہیں اور جمہوریت کی کھوتی کو زیر دام لانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
میرا تین ، سو اتین برس پہلے ہونے والے انتخابات کے موقعے سے ہی کہنا ہے کہ ہمارے انتخابی نظام میں بہت سارے خلا موجود ہیں اور ان خلاوں میں ہر کوئی اپنی اپنی ہوا بھر لیتا ہے۔ اگر ہمارے سیاستدان اور دانشور واقعی محب وطن ہیں، وہ ملک میں حقیقی جمہوریت اور اصلی احتساب چاہتے ہیں تو انہیں چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے اور جمہوریت کو گالیاں دینے کی بجائے اس نظام کی اصلاح کے لئے کام کرنا چاہئے۔ جب وہ جمہوریت کو کھوتی کہہ کراس کی تذلیل کریں گے تو انہیں اندازہ ہوناچاہئے کہ اکیسویں صدی کا پہلا عشرہ گزرے بھی چھ برس ہونے والے ہیں، انہیں اندازہ ہی نہیں کہ سوشل میڈیا کے پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا جو اپنے ساتھ بہت ساری گندگی لایا ہے تو بہت ساری بہا کر بھی لے گیا ہے۔ پاکستانی قوم اپنی فوج سے دیوانہ وار محبت کرتی ہے مگرایک ذمہ دار اور باشعور معاشرے میں آمریت کی حمایت دشوار ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ ہمارے بعض دوست ابھی تک اس نیم حکیم کی طرح ہیں جو ایم بی بی ایس کرنے والوں کو خطرہ جان قرار دیتے ہیں۔ کچھ مہربانوں کی مشکل تو ایسی بڑھی ہے کہ انہیں اب پاکستانی ہی نہیں بلکہ ترکی کی قیادت کی کرپشن کی کہانیاں بھی بیان کرنی پڑ رہی ہیں۔ بعض اوقات اپنے طور پر اٹھایا گیا یہ بوجھ بہت تکلیف دہ ہوجاتا ہے ، یہ اپنے اوپر لادی گئی خود ساختہ ذمہ داریاں جگ ہنسائی کا باعث بھی بن جاتی ہیں۔