اپوزیشن کیسے کامیاب ہو سکتی ہے ؟
وائے ناکامی کہ نواز شریف مخالف عوام کا طبقہ عمران خان اور طاہرالقادری سے جس قدر توقع لگائے بیٹھا ہے اسی قدر ان سے ناامید بھی ہے !
وزیر اعظم نواز شریف کے سبب اس طبقے کے مطابق ان کو درپیش ذہنی خلجان کا حل صرف فوج ہے مگر اس کے لئے جن عناصر کی ضرورت ہے وہ انہیں عمرا ن خان اور طاہرالقادری کے پاس نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس مخمصے کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ حکومت ہٹاؤ تحریک کے آغاز پر انتہائی مایوسی کا شکار ہیں اور کسمپرسی سے دائیں بائیں دیکھ رہے ہیں کہ شائد امید کی کوئی کرن نظر آئے۔ ان کے نزدیک چھوٹی موٹی پیش رفت سے بات نہیں بنے گی ،کوہ ہمالیہ سرکے گا تو فوج حرکت میں آئے گی !
دوسری جانب الیکٹرانک میڈیا نے مسلم لیگ نون کے ایم این اے اسدالرحمٰن کے علم بغاوت کو تھامنے کی کوشش تو کی ہے لیکن اس بغاوت کی حیثیت بھی ہلکی پھلکی لینڈ سلائنڈنگ سے زیادہ نہیں ہے!....تیسری جانب وزیر اعظم نواز شریف مخالف حلقے یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ اول تو عمران خان پنجاب میں جیت ہی نہیں سکتے اور دوم یہ کہ اگر فرض کر لیا جائے کہ آج شام کے بعد نواز شریف نہیں ہیں تو سوال یہ ہے کہ پاکستان کا اگلا سربراہ کون ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے بقول عمران خان نے تو ایسی کسی اہلیت کا ابھی تک مظاہر ہ نہیں کیا ہے۔
ایسے میں بہت ضروری ہوگیا ہے کہ عمران خان اور طاہرالقادری عوام میں اپنی ساکھ بحال کرنے کے لئے کچھ ٹھوس اقدامات کریں ، وگرنہ ان کی تحریکوں سے عوام اور فوج کو کسی قسم کی تحریک نہ مل سکے گی۔ مثال کے طور پر کیا ہی خوب ہو اگر عمران خان وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے انہیں فی الفور عہدے سے ہٹادیں اور ان کا کیس نیب کو ریفر کردیں اور اعلان کریں کہ تب تک پرویز خٹک کو بحال نہیں کیا جائے گا جب تک ان کے خلاف کرپشن کے الزامات غلط ثابت نہیں ہو جاتے۔اسی طرح عمران خان کو پارٹی سے ناراض اکابرین کو منانے کے لئے ان کے گھر جانا چاہئے ، ان کے مطالبات کو مان کر پارٹی کو آگے لے کر چلنا چاہئے تاکہ عوام میں ان کی ساکھ بہتر ہو سکے۔انہیں اپنی تیسری شادی کا تذکرہ اب بھول کر بھی میڈیا کے سامنے نہیں کر نا چاہئے ،وہ شادی بے شک کرلیں مگر صرف اتنی خبر کے ساتھ کہ عمران خان نے انتہائی سادگی کے ساتھ شادی کرلی۔ اس موقع پر قریبی عزیزوں کے سوا کوئی اور موجود نہ تھاتاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ وہ شادی برائے شادی نہیں بلکہ شادی برائے آسودہ زندگی کر رہے ہیں۔
ادھر علامہ طاہرالقادری کو اپنے معتقدین سے میڈیا کے سامنے معافی مانگنی چاہئے کہ 17جون 2014کو ان کی اشتعال انگیزتقریر کے باعث ان کے پیاروں کی اموات ہوئیں۔ انہیں یہ بھی واضح کرنا چاہئے کہ ان کے سیاسی اہداف کیا ہیں؟ کیا وہ وزیر اعظم کے امیدوار ہیں یا محض ممکنہ وزیرا عظم کی بی ٹیم کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں؟اسی طرح انہیں دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں کے بارے میں اپنی پالیسی جاری کرنا چاہئے تاکہ معاشرے کے مذہبی طبقات ان کے حوالے سے بہتر رائے قائم کر سکیں۔
شیخ رشید کو نوابزادہ نصراللہ کی طرح اپنی سیاست میں متانت اور سنجیدگی لانا چاہئے، محض عمران خان یا طاہرالقادری کے تانگوں پر سواری کرکے خوش نہیں ہونا چاہئے ۔ کرائے کی گاڑی کتنی ہی بڑی اور نئی کیوں نہ ہو، ایک مخصوص مدت کے لئے انسان کے پاس ہوتی ہے ۔ بہتر یہی ہوتا ہے کہ انسان اپنی سواری پر ہی سوار ہو، خواہ بائیسکل ہی کیوں نہ ہو۔انہیں اپنے آپ کو فوج کا نمائندہ ظاہر کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔ اس سے معاشرے کا ایک بڑاحصہ ان سے خائف رہتا ہے کیونکہ کچھ بھی ہو عوام کی اکثریت فوج کے سیاسی کردار کو پسند نہیں کرتی اور ایسے سیاستدانوں کو بھی پسند نہیں کرتی جو فوج کے ڈھنڈورچی جانے جائیں ۔ اگر عوامی رویہ ایسا نہ ہوتا تو وزیر اعظم نواز شریف کے ان سے بڑھ کر فوج سے ذاتی مراسم تھے، وہ چاہتے تو انہیں ہی اپنی پہچان بنا کر چلتے رہتے۔
اپوزیشن جماعتوں میں پیپلز پارٹی کی سچوایشن البتہ سب سے دلچسپ ہے ۔ وہ ابھی کھل کر نہیں کھیل رہی اور سچ پوچھئے تو پیپلز پارٹی ابھی اس پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔ و ہ تھوڑا آگے اور تھوڑا پیچھے چل رہی ہے ، اسی میں اس کی عافیت ہے کیونکہ عوام کی وہ حمائت اسے حاصل نہیں ہے جو اس سے قبل تھی۔ بے نظیر بھٹو جیسی بڑی شخصیت کے بعد بلاول بھٹو جیسا نوخیز سیاستدان اپنے جوہر چمکانے کی سعی کر رہا ہے ۔ اس عالم میں اس سے کسی اونچی اڑان کی توقع نہیں باندھی جا سکتی ۔ وہ ابھی نیا نکور ہے ، کم سن ہے ، ناتجربہ کار ہے، جبکہ آصف زرداری کو سچ پوچھئے عوام نے کبھی سیاسی لیڈر کے طور پر قبول ہی نہیں کیا ۔ سابق صدر کے طور پر ان کی اتنی ہی توقیر ہو سکتی ہے جتنی پاکستان کے دیگر سابقہ صدور کی ہوتی رہی ہے ۔پیپلز پارٹی کو چاہئے کہ بلاول بھٹو کو پنجاب، بالخصوص لاہور سے الیکش لڑوانے کی تیاری کریں تاکہ پنجاب میں کھوئی ہوئی پوزیشن کو تحریک انصاف سے بچا یا جا سکے۔ اگر پیپلز پارٹی نے ایسا نہ کیا تو 2018کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کا آخری بار نام سنا جائے گا۔لہٰذا اس کے لئے یہی بہتر ہے کہ اپوزیشن کی اپوزیشن کرتے ہوئے حکومت کو آنکھیں دکھائے اور ایک علیحدہ نام کمائے۔ ابھی کسی کنٹینر یا ٹرک تو کیا بلاول بھٹو کو کسی ٹریکٹر ٹرالی پر بھی سوار نہیں ہونا چاہئے!