پولیس کے شہدا۔۔۔ ہمارے ہیرو
مُلک بھر میں چار اگست کو پولیس کے شہدا کا دِن منایا گیا،اِس موقع پر پولیس کے اعلیٰ افسروں نے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے عظیم شہدا کی قبروں پر حاضری دی اور پھول چڑھائے، پولیس کے دستوں نے شہدا کو سلامی دی،یوم شہدا کے موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پولیس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمار قربانیاں دیں،شہدا کو سلام ہے یہی ہمارے حقیقی ہیرو ہیں،انہوں نے کہا تمام سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں اور دہشت گردی کو شکست دینے میں پولیس کا بہت بڑا کردار ہے، ہم قومی جدوجہد میں اپنی پولیس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ملک بھر میں 2001ء کے بعد 4500 پولیس افسر اور جوان شہید ہوچکے ہیں۔
پولیس ایک ایسی باوردی سویلین فورس ہے جو شہریوں کے جان ومال کے تحفظ میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے،امن و امان کے قیام اور شاہراؤں پر ٹریفک کی روانی سے لے کر عام لوگوں کو ہر طرح کے مافیاز کو ظلم و ستم سے محفوظ رکھنا پولیس کے فرائض میں شامل ہے، جب تک وطنِ عزیز کو دہشت گردی کے عفریت کا سامنا نہیں تھا اُس وقت تک پولیس کو نہ تو اس سے نپٹنے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی اور نہ ہی یہ فورس دہشت گردوں کے نشانے پر تھی۔
یہ معمول کے مطابق اپنے فرائض انجام دے رہی تھی کہ اچانک اسے دہشت گردی کے عذاب نے آ لیا، شروع شروع میں پولیس کے جوان اور افسر اس کے مقابلے کے لئے تیار نہیں تھے،اِس لئے دہشت گردوں کا آسان ہدف بھی رہے،راہ چلتے پولیس اہلکاروں کو بھی نشانہ بنایا گیا اور بلوچستان جیسے صوبے میں پولیس افسروں کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا گیا،سویلین اداروں میں پولیس واحد فورس ہے کہ اگر اس کا کوئی افسر اور جوان کسی بھی قسم کی صورتِ حال میں شہید ہوتا ہے تو اس کی جگہ لینے کے لئے فوری طور پر دوسرا تیار ہوتا ہے،یہ اعزاز فوج کے سوا کسی دوسرے ادارے کو حاصل نہیں، پولیس کی مشکلات اس لحاظ سے بھی دوچند ہیں کہ اسے معاشرے میں جرائم پیشہ افراد اور گروہوں سے نپٹنا ہوتا ہے ،اپنے اِن فرائض کی ادائیگی میں پولیس پر طرح طرح کے الزامات بھی لگتے ہیں،رشوت لے کر کسی مقدمے کا رُخ بدل دینا یا اس کی ایف آئی آر کو خراب کر دینا تو معمول کا الزام ہے،جو ہر کوئی بلا سوچے سمجھے جھٹ سے پولیس پر جڑ دیتا ہے، ممکن ہے بعض افسر یا اہل کار اس طرح کے خلاف قانون کاموں میں ملوث ہوں،لیکن اس فورس میں نیک نام افسروں اور اہلکاروں کی بھی کوئی کمی نہیں، بہت سے ایسے بھی ہیں جو شہید ہو گئے تو پتہ چلا کہ اُن کے اہل خانہ کس قسم کے حالات سے دوچار ہیں۔
معدودے چند خوشحال پولیس افسر بھی ہوں گے، شنید ہے کہ بہت سے ایسے بھی ہیں جو ملازمت کے ساتھ ساتھ بہت سے منافع بخش کاروبار بھی کرتے ہیں،لیکن سچی بات یہ ہے پولیس افسروں کی ایک بڑی تعداد ایسے حالات میں کام کرتی ہے جو نہ تو قابلِ رشک ہیں اور نہ ہی شایانِ شان، عام طور پر لوگ چھوٹے پولیس افسروں کو مطعون کرتے نہیں تھکتے، اُن کے خلاف شکایات کا انبار بھی لگائے رکھتے ہیں،لیکن یہ تصویر کا ایک رُخ ہے دوسرا رُخ یہ ہے کہ پولیس افسروں اور جوانوں نے دہشت گردی کے خاتمے میں اپنا کردار جرأت مند طریقے سے ادا کیا ہے، اور اُن کے دامن پر الزامات کے جو چھینٹے پڑتے ہیں اُن کے داغ اپنے خون سے دھونے کی کوشش کی ہے۔
بہت سے پولیس افسر ایسے تھے جنہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، لاہور کی شاہراہِ قائداعظم پر چیئرنگ کراس چوک میں ایک دھرنے کے شرکا کو پولیس افسر منت سماجت کر کے سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان کی اطلاعات کے مطابق دھرنے کے شرکا کو دہشت گردی کا خطرہ لاحق ہے اِس لئے وہ جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے منتشر ہو جائیں، ایسی صورتِ حال میں کسی جلوس یا دھرنے کے شرکا پولیس کی باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور شاید یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں ہٹانے کے لئے یہ حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ عین ممکن ہے اس دھرنے والوں کے ذہن میں بھی اسی طرح کی سوچ ہو،ابھی پولیس کا اصرار اور دھرنے والوں کا انکار جاری تھا کہ آناً فاناً دھماکہ ہو گیا، ایک خود کش بمبار پیدل چلتا ہوا آیا اور پولیس کی گاڑی کے قریب پہنچ کر خود کو اُڑا لیا۔ ان افسروں نے اپنے جوان خون کا نذرانہ دے کر ثابت کر دیا کہ وہ سچ کہہ رہے تھے اور دھرنے والوں کو غلط اطلاع دے کر گمراہ نہیں کر رہے تھے،بلکہ درست اطلاع کے ذریعے اُن کی جان بچانے کی فکر میں مبتلا تھے،اس دھماکے میں زیادہ تر پولیس افسر اور جوان ہی شہید ہوئے،ایسی بہت سی قربانیاں پولیس کے کریڈٹ پر ہیں جو پولیس کے کردار پر لگنے والے داغ دھبے دھوتی رہتی ہیں۔
یہ درست ہے کہ پولیس کے مجموعی کردار کو درست کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا کردار نوآبادیاتی دور کی پولیس سے مختلف ہونا چاہئے اور قانون کی پاسداری کے لئے اُسے کسی قسم کے سیاسی و غیر سیاسی دباؤ کو برداشت نہیں کرنا چاہئے،لیکن پولیس کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ ہر کوئی اس سے خوش نہیں ہو سکتا اور اس پر الزام لگا کر ہی یک گونہ تسکین محسوس کرتا ہے چاہے اس الزام میں صداقت ہو یا نہ ، اگرچہ یہ درست ہے کہ بعض افسر پولیس کی نیک نامی پر بھی دھبہ ہوتے ہیں،لیکن کالی بھیڑیں کہاں نہیں ہوتیں، بڑے سے بڑے نیک نام ادارے میں بھی مخصوص لوگ خلافِ ضابطہ اور قاعدہ حرکتوں کے مرتکب ہوتے ہیں،اِس لئے پولیس سے بھی لوگوں کو جائز شکایات ہوتی ہوں گی،لیکن مشکل اور نامساعد حالات میں اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے ہمارے شہید، ہماری قوم کے اصل ہیرو ہیں اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بجا طور پر اُنہیں ایسا قرار دیا ہے۔
حالیہ برسوں میں مُلک بھر میں جس بڑی تعداد میں پولیس کے افسر اور جوان شہید ہوئے ہیں اندازہ ہے کہ خاندانوں کے ہزاروں افراد اس سے متاثر ہوں گے ان شہدا کے پسماندگان کی درست طریقے سے دیکھ بھال قوم کی ذمے داری ہے،اخبارات میں بعض اوقات شہدا کے ورثا کے حالات پڑھنے کو ملتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے کہ ان خاندانوں کی اچھی طرح نگہداشت نہیں کی جا رہی،ضرورت اِس بات کی ہے کہ پولیس کے شہدا کے ورثا کو معاشرے میں باعزت مقام دِلانے کے لئے اُن کی ہر طرح کی ضروریات کا خیال رکھا جائے، پولیس کے شہدا کے بچوں کی تعلیم کے لئے بہتر مواقع پیدا کئے جائیں تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ جن لوگوں نے وطنِ عزیز کے لئے جانیں قربان کیں اور دہشت گردی کا منہ موڑا،اُن کے ورثا معاشرے کی بے حسی کا شکار ہو گئے۔