کپتان کا مقابلہ اپوزیشن سے نہیں اپنے وعدوں سے ہے!

کپتان کا مقابلہ اپوزیشن سے نہیں اپنے وعدوں سے ہے!
کپتان کا مقابلہ اپوزیشن سے نہیں اپنے وعدوں سے ہے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے اپنی انتخابی مہم اور اپنے 9 نکات میں بہت بڑے وعدے کر رکھے ہیں۔ ایک ایک وعدہ سو سو من کا ہے، جسے پورا کرنا آسان نہیں ہوگا۔

تاہم مَیں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ عمران خان کی حکومت بمشکل ایک دو سال چلے گی۔ یہ بات در حقیقت وہ لوگ کر رہے ہیں جو 2018ء کے انتخابات میں بری طرح شکست کھا گئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ نظام اسی طرح لڑکھڑاتا رہے۔

مَیں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ جس قسم کی توقعات عوام نے عمران خان سے باندھ رکھی ہیں، وہی ان کے لئے سب سے بڑی طاقت ثابت ہوں گی، کیونکہ ان توقعات پر پورا اترنے کے لئے عمران خان اگر قدم بڑھاتے ہیں اور اپوزیشن ان کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہے تو عوام کا غیظ و غضب ان رکاوٹوں کو بہا لے جائے گا۔

پچھلے دس برسوں کا تجربہ بتاتا ہے کہ اب کسی حکومت کو غیر آئینی طریقے سے گھر نہیں بھیجا جا سکتا، جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت سال دو سال میں چلی جائے گی، وہ کس بنیاد پر ایسا کہہ سکتے ہیں؟ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عمران خان تحریک عدم اعتماد کا نشانہ بن جائیں گے یا ان کی پیش گوئی یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں گھر بھیج دے گی؟ جب حکومت بنے گی اور آگے چلے گی تو یہ اپوزیشن اتحاد جو آج اکٹھا نظر آ رہا ہے اس میں بھی دراڑیں پڑنا شروع ہو جائیں گی۔ خاص طور پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی تا دیر اکٹھا چل ہی نہیں سکتیں۔

پیپلزپارٹی نے پہلے ہی دیکھ لیا ہے کہ نوازشریف کے ساتھ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کر کے بہت نقصان ہوا ہے اور پنجاب میں پیپلزپارٹی ایک ثانوی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔

اب اگر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اپوزیشن اتحاد میں زیادہ عرصے تک پیپلزپارٹی شامل رہی تو پنجاب سے اس کا صفایا ہو جائے گا، جبکہ سب جانتے ہیں کہ آصف علی زرداری تحریک انصاف سے زیادہ مسلم لیگ (ن) کو اپنا اصل حریف سمجھتے ہیں اور پنجاب سے اس کا خاتمہ ان کی اولین ترجیح ہے، ایسے میں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ اپوزیشن اتحاد کبھی عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائے گا تو یہ اس کی خوش فہمی تو ہو سکتی ہے۔ حقیقت سے اس کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔
تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی کی 116 سیٹیں لینے کے بعد جس تیزی کے ساتھ قومی اسمبلی میں حکومت سازی کے لئے اپنی نشستیں پوری کی ہیں وہ اس امر کا کھلا اظہار ہے کہ عمران خان کو جوڑ توڑ کرنا آتا ہے۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم اے کے بغیر حکومت بنانے کا جو عزم کپتان نے ظاہر کیا تھا، وہ اب پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

متحدہ اپوزیشن صرف اشک شوئی یا پھر آنے والی حکومت کو دباؤ میں رکھنے کے لئے مشترکہ امیدوار لانے کا سوانگ رچا رہی ہے۔ مثلاً شہباز شریف کو وزیراعظم کا امیدوار نامزد کر کے کیا واقعی پیپلزپارٹی یہ چاہے گی کہ وہ وزیر اعظم بن جائیں؟ کیا آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری شہباز شریف کی کابینہ میں شامل ہونا پسند کریں گے؟ کیا ایم ایم اے کی جماعتیں دل سے یہ چاہیں گی کہ شہباز شریف وزیر اعظم بن جائیں، جن پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ذمہ داری عائد کی جاتی ہے اور جن پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے ختم نبوتؐ کے مسئلے پر رانا ثناء اللہ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور انہیں حکومتی دباؤ استعمال کر کے بچا لیا؟ حقیقت یہ ہے کہ متحدہ اپوزیشن اپنے اندر بے شمار تضادات لئے ہوئے ہے۔ یہ تضادات ہی عمران خان کے لئے سود مند ثابت ہوں گے۔ جس طرح اب تک متحدہ اپوزیشن اپنا کوئی جاندار اثر نہیں دکھا سکی، اسی طرح آئندہ بھی شاید وہ کوئی ایسا پریشر نہ ڈال سکے جو حکومت کے لئے مشکلات پیدا کر سکے۔

شیخ رشید نے اگر یہ کہا ہے کہ حکومت بنتے ہی مسلم لیگ(ن) میں فارورڈ بلاک بن جائیں گے تو یہ کوئی انہونی بات نہیں کی۔ پاکستان میں یہ معمول کی بات ہے۔

پھر مسلم لیگ(ن) کے ارکانِ اسمبلی کو تو پچھلے دس برسوں سے اقتدار میں رہنے کی عادت پڑی ہوئی ہے، چاہے وہ مرکز کا ہو یا صوبے کا۔ اس بار وہ دونوں ہی سے محروم ہو گئے ہیں۔ یہ صورت حال بہت سے ارکانِ اسمبلی کو کمزور کر سکتی ہے، اس لئے کمزور اپوزیشن ہو سکتی ہے ،حکومت نہیں۔
اب جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ دھاندلی کے بڑھتے ہوئے شور کی وجہ سے حکومت کی کریڈیبلٹی جلد ختم ہو جائے گی، جس کے بعد اس کے رہنے کا جواز ہی ختم ہو جائے گا۔

ایسا اس لئے نہیں ہوگا کہ سوائے مولانا فضل الرحمن کے باقی کسی بڑے سیاسی رہنما نے یہ نہیں کہا کہ انتخابات دوبارہ کرائے جائیں۔کچھ عرصے بعد خود پیپلزپارٹی موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری کرانے کے لئے میدان میں آجائے گی،جس طرح آصف علی زرداری نے نوازشریف کو یقین دلایا تھا کہ اسمبلیاں پانچ سال پورے کریں گی، اسی طرح وہ موجود اسمبلیوں کے برقرار رہنے کی مکمل حمایت کریں گے۔

اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ میں شریکِ اقتدار ہوگی ،پھر آصف علی زرداری کو اس بات کا بھی ادراک ہے کہ تحریک انصاف کی پنجاب میں پانچ سال حکومت رہی تو مسلم لیگ (ن) قصہ ء پارینہ بن جائے گی اور اس وقت سوائے پیپلزپارٹی کے اور کوئی جماعت پنجاب میں قدم نہیں جما سکے گی، کیونکہ پیپلزپارتی کی پنجاب میں جڑیں بہت گہری ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری کو اس بار جتنا متعارف کرانا تھا، اتنا متعارف کرا دیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی نے پنجاب میں صرف چند شہروں میں امیدوار کھڑے کئے، اس کا مطلب ہے آصف علی زرداری کا اس بار یہ ٹارگٹ تھا ہی نہیں کہ بلاول کو وزیراعظم بنایا جائے۔2023ء کے انتخابات میں بدلے ہوئے حالات کے پیش نظر بلاول بھٹو زرداری ایک بہت بڑی امید بن کر میدان میں اتریں گے۔

اس منظرنامے میں کہیں بھی کوئی ایسی تحریک پنپتی دکھائی نہیں دے رہی جو تحریک انصاف کی حکومت کے لئے خطرہ بن سکتی ہو۔یہ جو چھوٹے موٹے مظاہرے جاری ہیں، یہ بھی حکومتوں کی تشکیل تک ہیں، پھر سارا معاملہ اسمبلیوں کے اندر چلا جائے گا۔ وہاں کچھ بھی ہوتا رہے، حکومت کو کچھ نہیں ہوتا۔ پھر عمران خان کی دبنگ شخصیت بھی ایک بڑی ڈھال بن کر ابھرے گی۔

یوں دیکھا جائے تو اس امر کا کوئی ٹھوس امکان نظر نہیں آتا کہ اپوزیشن دھاندلی کے الزام پر کوئی ایسا بڑا بحران کھڑا کر سکے گی جو حکومت کو ہی نہ چلنے دے۔ عمران خان کے لئے اصل چیلنج اپوزیشن نہیں ،چاہے وہ کتنی ہی مضبوط ہو۔

اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ حکومت میں آکر اس تبدیلی کو یقینی بنائیں، جس کا انہوں نے برسوں پہلے وعدہ کیا تھا اور جس کی بنیاد پر اپنی انتخابی مہم چلاتے رہے۔ نیا پاکستان کی جو اصطلاح انہوں نے متعارف کرائی ہے، وہ اب بچے بچے کی زبان پر ہے۔ اگر حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے نئے پاکستان کا عوام کو احساس نہ دلایا تو مایوسی بڑھے گی۔
عمران خان بڑی عرق ریزی سے اپنی ٹیم منتخب کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے اگر ان کی ٹیم میں ان جیسا جذبہ نہ ہوا تو تبدیلی نہیں آ سکے گی۔ قانون سازی کئے بغیر جو بڑے بڑے کام عمران خان فوری کر سکتے ہیں ،سب سے پہلے ان پر توجہ دی جانی چاہیے۔

مثلاً ہسپتالوں کی کارکردگی کو بہتر بنانا۔ اس میں کسی قانون سازی کی نہیں بس انتظامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ میرٹ پر تقرریاں کرکے اور کڑے نظم و ضبط کو فروغ دے کر یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ پولیس میں اصلاح بھی ضروری ہے۔

یہ واحد محکمہ ہے جو اگر بدل جائے تو لوگ پنجاب کو خاص طور پر بدلا ہوا محسوس کریں گے۔اس کے لئے ایک ایسے پولیس افسر کی ضرورت ہے، جسے آئی جی بنا کر مکمل اختیار دے دیئے جائیں اور پھر تبدیلی مانگی جائے۔ پنجاب میں پولیس ملازمین پہلے سے خوش ہیں کہ اب انہیں بھی خیبر پختونخوا جیسی سہولتیں ملیں گی، خاص طور پر آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کا نظام رائج کیا جائے گا، تاکہ پولیس والوں کی نفسیاتی حالت بہتر ہوسکے۔

ایک اور سیکٹر جس میں فوری تبدیلی لا کر تحریک انصاف نئے پاکستان کے دعوے کی طرف بڑھ سکتی ہے، وہ تعلیم کا شعبہ ہے۔ خاص طور پر یونیورسٹیاں جو اس وقت مسائل کا گڑھ بن چکی ہیں اور جن میں اخلاقی گراوٹ کے آثار بھی آئے روز سامنے آتے ہیں، ایک بڑے آپریشن کی ضرورت ہے۔ ایچ ای سی چاہے مرکز کا ہو یا پنجاب کا بالکل ناکام ہو چکا ہے۔

سنجیدہ واقعات کے باوجود ایچ ای سی کی بے بسی اور غفلت یونیورسٹیوں کے مسائل بڑھا رہی ہے، اس کی ری سٹرکچرنگ کی بھی ضرورت ہے۔

سرکاری سکولوں اور کالجوں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ شہباز شریف نے صرف دانش سکولوں پر ہی توجہ دی، جبکہ ہزاروں سکولوں کو نظر انداز کئے رکھا، یہی حالت کالجوں کی بھی ہے۔

پنجاب میں جسے بھی وزیر تعلیم بنایا جائے اسے یہ ٹاسک سونپا جائے کہ تین ماہ کی مدت میں پنجاب کے شعبہ تعلیم کی حالت بدلے، اگر خیبر پختونخوا کی طرح پنجاب میں بھی والدین نے اپنے بچے پرائیویٹ سکولوں سے اٹھا کر سرکاری سکولوں میں داخل کرانا شروع کر دیئے تو تحریک انصاف تبدیلی کے نعرے کو سچ کر دکھائے گی۔

تحریک انصاف کی حکومت میں وزیر و مشیر بننے والوں کو یہ بات پلے باندھ لینی چاہئے کہ عمران خان کا مقابلہ اپوزیشن سے نہیں، بلکہ اپنے وعدوں سے ہے، اگر وعدوں کی تکمیل نہ ہوئی تو اپوزیشن کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی خود عوام ہی چیختے چلاتے سڑکوں پر آ جائیں گے، کپتان تو جیتنے کا جنون رکھتا ہے، اصل سوال یہ ہے کہ کیا کپتان کو ٹیم بھی ایسی ملتی ہے جو اقتدار کو مزے کی بجائے ایک چیلنج سمجھے اور عوام نے ان سے جو امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، انہیں پورا کرنے میں دن رات ایک کر دے۔

مزید :

رائے -کالم -