پریشانیوں سے دور رہنا چاہتے ہیں تو اللہ کو اسطرح پکاریں
پچھلے دنوں ایک دوست تشریف لائے ۔ اپنے مسائل کا تذکرہ کر کے کچھ آب دیدہ ہوگئے ۔ میں نے انھیں تسلی دی۔ اللہ کی بارگاہ میں مسلسل دعا کرنے کی تلقین کی۔ پھر انھیں سمجھایا کہ اللہ کی بارگاہ میں اپنا مسئلہ پیش کر کے صبر سے کام لیجیے اور پھر دیکھیے کہ اللہ کیا کرتا ہے۔ اپنی بات سمجھانے کے لیے میں نے ان کی خدمت میں ایک شعر پڑھا۔
میری آہوں میں اثر ہے کہ نہیں دیکھ تو لوں
اس کو کچھ میری خبر ہے کہ نہیں دیکھ تو لوں
اس شعر میں جو درد ہے وہ اسے محسوس کر کے پھوٹ پھوٹ کر رو دیے۔ میں نے انھیں سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ دو لوگوں کی دعا رد نہیں کرتے ۔ ایک وہ جو اللہ کا مخلص خادم ہو۔ اپنے تعصبات اور خواہشات سے بلند ہوکر بندگی اور خدمت دین کی راہ پر گامزن ہو۔ جس کی زندگی کا مرکزی خیال صرف اور صرف اللہ کی ذات ہو۔ ایسا شخص جب مسائل میں گھرجاتا ہے ۔ شیطان اور اس کے ایجنٹ اس کی زندگی اس پر مشکل کر دیتے ہیں ۔ راہ خدا میں وہ ستایا جا رہا ہو۔ پھر وہ تڑپ کر اللہ کا نام لیتا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسوں گرتے ہیں تو اس کی آہ سیدھی عرش الٰہی تک جا پہنچتی ہے۔ لمحہ گزرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ اللہ فیصلہ سنا دیتے ہیں، گرچہ اس فیصلے کے نفاذ میں کچھ وقت لگتا ہے ۔
دوسرا شخص وہ ہے جس نے خدا کے قادر مطلق ہونے اور اس کے مقابلے میں اپنے عاجز مطلق ہونے کو دریافت کر لیا ہو۔ وہ خدا کی عظمت کو جانتا ہو۔ اس کی بڑائی کے بوجھ تلے دبا جا رہا ہو۔ اور ساتھ میں اپنی بے کسی پر لاچار ہو چکا ہو۔ مشکلات نے اس کا گھر دیکھ لیا ہو۔ ہر بلا آسمان سے اتر کر اس کے گھر کا پتہ پوچھتی ہوئی سیدھی اسی کے ہاں آتی ہو۔ اور آنے کے بعد جانے کا نام نہیں لیتی ہو۔ اسے لوگوں کے ظلم و ستم اور انسانوں کی طرف سے محروم کیے جانے کا سامنا کرنا پڑتا ہو۔ ایسا شخص جب تڑپ کر خدا کو پکارتا ہے ۔ اس کے دل سے جب آہ نکلتی ہو۔ جب بے بسی سے اس کی آنکھوں سے آنسوں نکلتے ہوں ۔ جب وہ اپنا سر خدا کے قدموں میں رکھ کر رو رہا ہو۔ اپنی خطاؤں پر نادم ہو۔ اس خوف میں ہو کہ کہیں حالات کی یہ سختی اس کے گناہوں کو نتیجہ نہ ہو۔
اس کے ساتھ وہ اپنی زندگی بدلنے کے لیے تیار ہو۔ نافرمانی کی ہر پگڈنڈگی کو چھوڑ کر صراط مستقیم پر چلنے کا عزم رکھتا ہو۔ اس عزم کے ساتھ اب خدا کی مدد کا طلبگار ہو۔ ایسے شخص کی پکار، اس کی آہ ، اس کی فریاد، اس کی تڑپ خداوند دو عالم کی بارگاہ تک فوراً جا پہنچتی ہے ۔ ۔ ۔ اس کی بات سنی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ اس کی درخواست مانی جاتی ہے ۔عرش اٹھانے والوں کو فوراً حکم ملتا ہے ۔ وہ اس حکم کو آسمان والوں تک منتقل کرتے ہیں ۔ آسمان والے فوراً اس حکم الٰہی کو زمین والوں تک منتقل کرتے ہیں ۔ زمین کے فرشتے اس حکم پر بلا تاخیر عمل کرتے ہیں ۔
لیکن یہ دنیا امتحان کی دنیا ہے اس لیے اس حکم کے ساتھ وقت لکھ کر بھیجا جاتا ہے ۔ فیصلہ کے ساتھ اس کے نفاذ کی گھڑی بھی متعین کی جاتی ہے ۔ یہ وقت اور یہ گھڑی اکثر کچھ تاخیر سے آتی ہے ۔ یہ اگر فوراً آجائے تو پھر امتحان ختم ہو جائے گا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ دعا کا جواب ہمیشہ دیتے ہیں ۔ ہمیشہ بندے کی بھلائی کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ مگر وقت موخر کر دیتے ہیں ۔ مانگی گئی چیز میں شر ہو تو اس کی جگہ بہتر چیز دیتے ہیں ۔ بندے کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا بندے کے حال سے کبھی بے خبر نہیں ہوتا۔ وہ ہر حال میں سنتا ہے ۔ وہ ہر حال میں بندوں کے ساتھ بھلائی ہی کرتا ہے ۔ بندوں کو اسے پکارتے رہنا چاہیے ۔ اپنی اصلاح کرتے رہنا چاہیے ۔ صبر سے کام لینا چاہیے ۔ یہ طے ہے کہ اس کے بعد زندگی میں خیر اور بھلائی آئے گی اور پریشانیاں اور مسائل دور ہوجائیں گے۔