وہ جو دائرہ اسلام آباد سے خارج ہوگئے 

وہ جو دائرہ اسلام آباد سے خارج ہوگئے 
وہ جو دائرہ اسلام آباد سے خارج ہوگئے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یوں تو ہم اکثر سنتے آئے ہیں کہ فلاں مولوی صاحب نے فلاں کو فتویٰ لگا دیا کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج کر دیا ہے مگر اب کی بار نیا معاملہ دیکھنے میں آیا کہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب جو کہ طویل عرصہ سے اسلام آباد میں منسٹر انکلیو کے مکین تھے ،انہیں دائرہ اسلام آباد سے خارج کردیا گیا ہے ،چاہے وقتی طور پر ہی سہی ،ایک بار تو سیاست کے ناخداوں نے ان پر ضرب لگادی ہے۔
مولانا صاحب حزب اختلاف میں ہوں یا مسند اقتدار پر سرکاری پروٹوکول انکے ہمراہ ہمیشہ رہا ہے۔ پہلی بار یہ حادثہ گزرا کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے دونوں سیٹوں پر بھاری مارجن کے ساتھ اپنے حریفوں سے شکست کھا گئے اور یوں قومی اسمبلی کی زینت نہ بن سکے۔ دوسری وجہ عمران خان کا اقتدار میں آنا ہے جہاں مولانا فضل الرحمن صاحب کی دال نہیں گل رہی ہے۔دوسری طرف انہوں نے حزب مخالف کی جماعتوں کو لے کر نمبر گیم کی دیگ چڑھا تو دی ہے مگر سلگتی لکڑیوں سے ابھی تک دھواں نکل رہا ہے دیگ کے تیار ہونے کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں۔
مولانا صاحب جس شدت سے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کروا رہے ہیں اگر اس لیول کی وہ ایک آل پارٹیز کشمیر کانفرنس بھی انعقاد پذیر کروا دیتے جو کہ انکے عہدے کا تقاضا بھی تھی تو شاید مظلوم کشمیریوں کی دعاؤں سے انکی اسلام آباد بدری بچ جاتی۔ایک سادہ سی بات سمجھنے کی ہے کہ بھرپور حکومتی وسائل رکھنے کے باوجود وہ اپنے حلقوں کے عوام کو مطمئن کیوں نہ کر سکے ۔ شکست خوردہ لیڈر کی حیثیت سے وہ مجلس عمل کا بار کب تک اٹھاتے ہیں۔ اور کیا انکی پھرتیا ں وہ رنگ لے آئیں گی جسکے وہ خواہاں ہیں۔
دائرہ اسلام آباد سے خارج ہونے کے زمرے میں مولانا صاحب اکیلے نہیں رہے بلکہ اپنے ساتھ محمود خان اچکزئی۔ اسفندیار ولی۔ جیسے معززین کو بھی ساتھ لے گئے ہیں۔
میاں نواز شریف بھی نا اہل ہو کر دائرہ اسلام آباد سے خارج ہو چکے ہیں ۔ جبکہ اس فہرست میں ن لیگ کے نہال۔ دانیال۔ طلال شامل ہو چکے ہیں عنقریب احسن اقبال کے اشارے مل رہے ہیں۔ شہبازشریف اور حمزہ شریف اقتدار کے ایوان میں تو نہ پہنچ سکے مگر اسلام آباد میں موجود پارلیمان میں ضرور چلے جائیں گے۔ بس یہی بات مولانا صاحب کو حوصہ دے جاتی ہے کہ خارجیت کی اس منزل میں وہ تنہا نہیں ہیں بڑے بڑے اکابرین انکے ہمنوا ہیں۔
اسلام آباد اہلِ اقتدار کا مقناطیس ہے جس سے ہر کوئی چپکنا چاہتا ہے مگر ہوا یوں کہ مقناطیس کے ساتھ مسلسل چپک کر مولانا صاحب میں بھی مقناطیسی خصوصیات پیدا ہوگئی تھیں اور اصول یہ ہے کہ ایک مقناطیس دوسرے کی قربت برداشت نہیں کرتا اور دور دھکیل دیتا ہے۔اگر مولانا صاحب اقتدار کے رنگ میں اتنا نہ رنگتے اپنی قربتیں اسلام آباد سے کم اسلام سے زیادہ رکھتے تو کوئی بھی انہیں اسلام آباد سے خارج کرنے سے پہلے سو بار سوچتا۔فی الحال مولانا صاحب سینیٹر طلحہ محمود کی رہائشگاہ پر چک شہزاد منتقل ہوگئے ہیں اور وہیں سے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں گے ۔ بہتر ہوتا کہ وہ اپنا وقت اپنے حلقے کے عوام کے ساتھ گزارتے، مفتی محمود کی میراث سنبھالتے۔ کاروبار سیاست میں سو د و زیاں کا جھگڑا چلتا رہتا ہے ۔ویسے بھی پلوں سے بہت پانی گزر چکا ہے نئے خون کو موقع دیں جو کہ خدمت کی سیاست کی آبیاری کر سکیں۔

۔

نوٹ:  روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

مزید :

بلاگ -