بھارت کی ہٹ دھرمی اور اقوام متحدہ کی اپیل
کشمیر ایک بار پھر لہو لہو ہے، اس بار بھی دنیا کی معنی خیز خاموشی، اوپر سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان کی بھارت اور پاکستان کو تحمل کی تلقین، بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ کیسا تحمل؟ کیا بات کر رہے ہیں؟ پہلی بات یہ کہ پاکستان نے کیا کر دیا،جس پر پاکستان کو تحمل کی تلقین کی جا رہی ہے۔ پاکستان تو دنیا کی توجہ اس خطے میں جاری مظالم کی طرف مبذول کروانے کی کوشش میں ہے جو خطہ ڈیڑھ ارب نفوس پر مشتمل اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے۔ پاکستان کی پالیسی تو یہ ہے کہ اس علاقے میں امن قائم کر کے عوام کی مشکلات کم کی جائیں۔ دوسری بات کی بھی منطق نظر نہیں آئی، تحمل کی اپیل وہ بھی بھارت سے؟ جو ایک جارح ہے، جو ناجائز قابض ہے، جو نہتے اور معصوم کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔
بھارت کو اس طرح تحمل کی اپیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت پر بہت ظلم ہو رہا ہے، لیکن پھر بھی صبر سے کام لے۔ کیا یہی انصاف ہے دنیا کا؟ یہ ہے ترقی یافتہ دنیا جو انسانی حقوق کی دعویدار ہے؟ یورپ یا امریکہ میں مرغی کا چوزہ مر جائے تو کسی نہ کسی غریب ملک پر بمباری شروع ہو جاتی ہے۔ پوری دنیا کو دھمکی مل جاتی ہے کہ ”تم ہمارے ساتھ ہو یا ہماری ہٹ لسٹ پر“…… اور اُدھر کشمیر میں 30 برس سے ظلم کا ہر حربہ آزمایا جا رہا ہے۔ لاکھوں جوان، بوڑھے اور بچے قربان کیے جا چکے ہیں۔ ہزاروں خواتین کی عزتوں کو تار تار کیا گیا ہے۔ ہزاروں خواتین بیوہ اور بچے یتیم ہوئے ہیں۔ ہزاروں نوجوان ماورائے عدالت قتل کیے جا چکے اور ہزاروں کال کوٹھڑیوں میں ظلم سہہ رہے ہیں۔ سیکڑوں اجتماعی قبریں برآمد ہوئی ہیں، مگر دنیا ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہوئی، کیا یہی انصاف ہے؟ اقوام متحدہ جو پاکستان کو بھی تحمل کا مشورہ دے رہی ہے۔ ذرا اپنی بوسیدہ الماریوں سے وہ دستاویزات تو نکال کر دیکھنے کی زحمت فرما لے جن دستاویزات میں کشمیر میں استصواب رائے کی قرادادیں ہیں۔ ان قراردادوں کی رو سے کشمیریوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ ایک ریفرنڈم کے ذریعے اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کریں گے۔
اگر یہ اقوام متحدہ 71 برس میں اپنی قرادادوں پر عمل کرانے سے عاجز رہا ہے اور بھارت نے ہر موقع پر بین الاقوامی برادری کو جوتے کی نوک پر رکھا ہے۔ کیا اب وہ آپ کی اپیل کا کوئی اثر قبول کر لے گا؟ ابھی حال ہی میں پاکستانی وزیراعظم کے دورۂ امریکہ کے موقع پر امریکی صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی تھی، جس پر بھارتی مشتعل ہو کر کشمیریوں پر حملہ آور ہو گئے ہیں اور مزید اٹھائیس ہزار پیرا ملٹری فورسز کو کشمیر کے اندر جھونک دیا ہے۔ کشمیری کب تک اس ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے اور پاکستان بین الاقوامی برادری کے احترام میں بھارتی استبداد کو بزور طاقت روکنے سے گریز برتتا رہے گا؟ بھارت کے مظالم بھارتی زیر تسلط کشمیر تک محدود نہیں ہیں، بلکہ آئے روز کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بمباری کرتا ہے، جس سے انسانی جانی نقصان کے ساتھ ساتھ املاک کو تباہ کیا جاتا ہے۔ اب تو حد ہو گئی کہ بھارتی فوجیوں نے ممنوعہ ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال شروع کر دیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی تمام کشمیری قیادت کو پابند سلاسل کر کے وادی میں مکمل کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ بھارت کی یہ حرکت کسی بھی وقت بڑی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ اس کی تمام ذمہ داری عالمی برادری پر عائد ہوگی، جو یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی بے انصافی اور تعصب کی چادر اوڑھے غفلت کی نیند میں ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ فوری طور پر وفود کو مختلف ممالک میں بھیجا جائے اور دنیا کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی جائے۔ اگر صرف مسلم ممالک ہی پوری حمایت کشمیریوں کے پلڑے میں ڈال دیں تو بھارت کشمیریوں کو ان کا حق آزادی دینے پر مجبور ہو سکتا ہے۔پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو اپنے ہر قسم کے اندرونی اختلافات کو پس پشت ڈال کر کشمیر کے لئے متحد ہو کر آواز اٹھانی چاہیے اور بیرون ممالک بھیجے جانے والے وفود میں حزب اختلاف کی بھی نمائندگی ہونی چاہیے۔ اس طرح جہاں دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی قوم ایک ہے، وہیں مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بھی مثبت پیغام ملے گا۔