”باجی“
خواتین و حضرات! کالم کے عنوان ”باجی“ سے یہ نہ سمجھئے گا کہ ہم حال ہی میں بننے والی فلم باجی یا ماضی میں بننے والی مشہور فلم ”باجی“ کے بارے میں بات کر رہے ہیں،بلکہ ہم آج کل میں بننے والے نئے سیاسی رشتے کی بات کر رہے ہیں۔آپ نے بھی خبروں میں پڑھا اور سُنا ہو گا کہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ کو اپوزیشن والے ”فردوس باجی“ کہہ کر پکارتے اور لکھتے ہیں۔ان میں خاص طور پر رانا ثناء اللہ بھی شامل ہیں جو ان کی کسی بھی پریس کانفرنس کے فوراً بعد اپنے جوابی بیان میں اُنہیں باجی فردوس کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اور پھر کھری کھری سناتے ہیں۔اب حال ہی میں طلال چودھری نے اُنہیں فردوس باجی کہہ کر چوٹ کی ہے کہ عمران خان صاحب اپنے امریکہ کے دورے پر اُنہیں پہرے داری اور چوکیداری کے لئے چھوڑ گئے ہیں تاکہ اپوزیشن کے حکومت پر ”ٹھیک ٹھیک نشانوں“ کے بروقت جواب دے سکیں۔
خواتین و حضرات! سیاست میں یہ کوئی پہلی رشتہ داری نہیں۔اس سے قبل بھی بہت سی رشتہ داریاں قائم ہوتی رہی ہیں۔مثلاً ایک وقت تھا جب ذوالفقار علی بھٹو صدر ایوب خان کو ڈیڈی تصور کرتے تھے اور پریس نے بھی اس رشتے کو خوب اُچھالا۔ آج تک لوگوں کوبھٹو سے ایوب خان کا ”ڈیڈی“ والا رشتہ یاد ہے۔یہ الگ بات کہ ڈیڈی کی کابینہ میں نوعمری میں ہی آ جانے والا بیٹا بعدازاں ناخلف ثابت ہوا اور اُسی ڈیڈی کے خلاف تحریک چلائی۔اسی طرح بھارت میں کرم چند موہن داس گاندھی کو ”باپو“، یعنی قوم کا باپ کا خطاب دیا گیا۔یہ الگ بات کہ کچھ ہی عرصے بعد اسی باپ کو ایک ہندو بیٹے نے ہی مار ڈالا۔بھٹو دور میں ہی شیخ رشید (وزیر صحت) کو بابائے سوشلزم کہا جاتا تھا،یعنی سوشلزم کا باپ۔ تاہم انہوں نے سوشلزم کے ساتھ باپ والا کوئی سلوک نہیں کیا۔شاید آپ کو یاد ہو کہ غلام مصطفی کھر بھی بھٹو کو باپ کا درجہ دیتا تھا اور اُسے بھی نوجوانی میں بھٹو کابینہ میں جگہ ملی اور پھر پنجاب کی گورنری بھی۔ یہ الگ بات کہ بعد میں ایسا بھی ہوا کہ باپ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے منہ بولے بیٹے غلام مصطفی کھر کے جلسے میں پانی اور سانپ چھوڑ دیئے تھے۔ یہاں باپ ناخلف تھا یا بیٹا، تاریخ ابھی فیصلہ نہیں کر سکی۔ ویسے ہم لوگ اکثر حساس فیصلے تاریخ کے حوالے کر دیتے ہیں کہ ”تاریخ فیصلہ کرے گی“۔ مگر تاریخ بھی عدالتوں کی طرح بہت مصروف ہے،اور وہ ہر بات کا فوری فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔
بے نظیر بھٹو کو ”دُختر ِ پاکستان“ کہا جاتا تھا۔ پھر اِسی دُختر ِ نیک اختر کو ہلاک کر دیا گیا، تاہم اُن کے قاتلوں کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا، تاریخ اس کی بھی چھان بین کر رہی ہے،کیونکہ اُن کے اہل ِ خانہ کو اب اس امر سے کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے پانچ سالہ دور میں وہ قاتلوں کی نشاندہی نہ کر سکے اور اس کیس کو بھی تاریخ کے حوالے کر دیا:”تاریخ بتائے گی کہ بے نظیر بھٹو کے قاتل کون تھے“۔ شاید یہ سیاسی رشتہ داریاں اسی قسم کی ہوتی ہیں۔ اب دیکھ لیں کہ برخوردار بلاول زرداری بھٹو، عمران خان کو ”انکل“ کہتے ہیں اور ہر جلسے، پریس کانفرنس میں اُن کے لَتّے لیتے ہیں:
ہمیں سے محبت ہمیں سے لڑائی
ارے مار ڈالا دھائی دھائی
یہ سب ان سیاسی رشتہ داریوں کا حُسن ہے۔
تاہم، خواتین و حضرات! اسی اپنی سیاست میں کچھ پاکیزہ رشتے بھی قائم ہوئے ہیں، جیسا کہ بابائے قوم یعنی قوم کا باپ حضرت قائداعظمؒ اور محترمہ فاطمہ جناحؒ بحیثیت مادرِ ملت،یعنی قوم کی ماں۔موجودہ دور میں محترمہ مہناز رفیع کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔سب اُنہیں مہناز آپا کہہ کر پکارتے ہیں۔انہوں نے اداکاری سے سیاست تک اور پھر سماجی کاموں میں جس خلوص اور وقار کا دامن تھامے رکھا اُس پر لوگ اُنہیں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سیاست کی دُنیا بھی عجیب دُنیا ہے۔یہاں ایک پاؤں عزت میں ہوتا ہے۔ دوسرا ذلت میں۔ہمیں اُس وقت بہت دُکھ ہوتا ہے جب کوئی عالم ِ دین سیاست میں قدم رکھتا ہے۔پھر وہ ”مولانا مودودیؒ“ سے ”مودودی ٹھاہ“ بن جاتا ہے(الیکشن1970ء میں مولانا مودودی کے خلاف یہ نعرہ بہت عام تھا) اور علامہ طاہر القادری بھی سیاست میں آ کر ناں تو علامہ رہے ناں کامیاب سیاست دان…… سیاسی رشتے داریاں ایسی ہی ہوتی ہیں، جیسا کہ احمد فراز نے کہا ہے:
تم تکلّف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا