چینی کی سینچری اور آٹا نایاب
میرے علاقے میں موجود تندور عید کے بعد سے بند ہے، تندور والا محمد رفیق مجھے کریانے کی ایک دکان پر کھڑا نظر آیا تو میں نے اس سے پوچھا خیریت تو ہے، تندور کیوں بند ہے؟ کہنے لگا آٹا ہی دستیاب نہیں تندور کھول کے کیا کرنا ہے۔ اگر مہنگا آٹا خرید کے روٹیاں بیچوں تو لوگ اعتراض کرتے ہیں، کوئی سرکاری بندہ آ کر جرمانہ بھی کر دیتا ہے 860 میں ملنے والا بیس کلو کا تھیلہ ساڑھے بارہ سو میں مل رہا ہے اس لئے میں نے تندور ہی بند کر دیا ہے۔ وہ بالکل صحیح کہہ رہا تھا، اتفاق سے میں بھی آٹے کی تلاش میں تھا اور ایک جاننے والے کریانہ سٹور مالک نے مجھے ساڑھے بارہ سو روپے میں تھیلہ دینے کی حامی بھری تھی۔ میں سوچنے لگا غریبوں کے لئے یہ کتنا سنگین مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے مگر حکومت اب اس کی طرف توجہ دینے کو تیار ہی نہیں، وہ دیگر مسائل میں اُلجھ گئی ہے اور بھوک مٹانے کی ذمہ داری لینے کو کارِ بیکار سمجھنے لگی ہے۔
حکومتی سطح پر بس ہلکے پھلکے بیانات اور چھوٹے موٹے نوٹس ہی رہ گئے ہیں، وگرنہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ حکومت چینی اور آٹے کے محاذ پر بری طرح شکست کھا چکی ہے۔ یہ دونوں ایسی اشیاء ہیں، جو انتہائی روز مرہ ضرورت میں آتی ہیں، ان کے بغیر کسی گھر کا نظام نہیں چلتا، مگر ان دونوں اشیاء کو مافیا کی دیمک نے ایسا جکڑا ہے کہ حکومت بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئی ہے چینی سو روپے سے اوپر فی کلو مل رہی ہے اور آٹا بھی بڑی تیزی سے سینچری کی طرف جا رہا ہے وہ غریب جو پہلے ہی صرف سوکھی روٹی تک محدود ہو گئے تھے اب نجانے انہیں سوکھی روٹی بھی مل سکے گی یا نہیں ماضی میں کسی حکومت کو اتنا بے بس نہیں دیکھا جتنی موجودہ حکومت نظر آ رہی ہے۔ پہلے تو کپتان یہ حکم جاری کرتے تھے کہ صوبائی حکومتیں آٹے اور چینی کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لائیں، اب وہ صرف اجلاس کرتے ہیں، جس میں اس بات پر غور ہوتا ہے کہ آٹے اور چینی کی قیمت کیوں بڑھ گئی ہے اور بس، وفاقی وزراء آٹے کی قلت کا ذمہ دار سندھ حکومت کو قرار دے رہے ہیں، جو اپنے حصے کی گندم باہر نہیں لا رہی چلیں بھئی وہ تو باہر نہیں لا رہی، پنجاب میں کیا ہوا ہے، کہاں گئی وہ لاکھوں ٹن گندم جو حال ہی میں خریدی گئی تھی اگر اس کی سپلائی فلور ملوں کو جاری ہے تو آٹے کی قیمت کیوں بڑھ گئی ہے، کیا یہ کرپشن اور بُری گورننس کی وجہ سے ہے؟ اُدھر پنجاب کے سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان ایک نیا فلسفہ لائے ہیں کہ سبسڈی سب کو نہیں دے سکتے، جنہیں دینی ہے، ان کے لئے لائحہ عمل بنا رہے ہیں گویا بلاواسطہ طور پر وہ بھی ہتھیار پھینک چکے ہیں اور انہوں نے آٹے کی قیمت کا معاملہ فلور ملوں پر چھوڑ دیا ہے۔
اس سے پہلے چینی کے معاملے پر حکومت کو بری طرح شکست ہو چکی ہے، چینی مافیا نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ حکومتی اداروں کو بے بس کر سکتا ہے۔ چینی 58 روپے سے ایک سو روپے تک پہنچ گئی ہے، جبکہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چینی 68 روپے کلو فروخت کر کے بھی تقریباً 10 روپے فی کلو منافع کمایا جا سکتا ہے، گویا اب چینی کی فی کلو فروخت پر مالکان 40 روپے منافع کما رہے ہیں اور انہیں کوئی روکنے والا نہیں شرمناک بات یہ ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے بھی اس لوٹ مار پر کوئی آواز نہیں اٹھائی جا رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس لوٹ مار میں اپوزیشن کی بڑی بڑی شخصیات بھی شامل ہیں، جن کی شوگر ملیں ہیں اور وہ اس بات پر خوش ہیں کہ ساری لعن طعن حکومت کے حصے میں آ رہی ہے اور وہ روزانہ کروڑوں روپے کا اضافی منافع کما رہے ہیں اب اگر کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے چینی کی قیمتوں میں اضافے کی کھلی چھوٹ اس لئے دی ہے کہ جہانگیر ترین کو چینی سکینڈل سے نکالا جا سکے، تو کیا غلط کہتے ہیں جہانگیر ترین جب ملک سے باہر گئے تو چینی 72 روپے کلو تھی، اور الزام یہ دیا جا رہا تھا کہ ان کی وجہ سے چینی کی قیمت بڑھی ہے اب سو روپے چینی بک رہی ہے تو کوئی ان کا نام تک نہیں لے رہا۔
اب اگر وہ کل کلاں ملک واپس آ کر یہ اعلان کر دیتے ہیں کہ ان کی شوگر ملوں سے چینی 70 روپے کلو فراہم کی جائے گی تو ان کے لئے بھرپور تالیاں ہی بجیں گی۔ عوام حیران ہیں کہ اب جبکہ سپریم کورٹ نے حکومت کو چینی سکینڈل کے تمام کرداروں کے خلاف کارروائی کی کھلی اجازت دے دی ہے تو حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرئے کیوں بیٹھی ہے حالانکہ چینی مافیا تو بے لگام ہو چکا ہے اور ہر روز چینی کی قیمت میں اضافہ کئے جا رہا ہے کوئی بعید نہیں کہ آنے والے دنوں میں چینی مزید مہنگی ہو جائے اور حکومت بے بسی کی تصویر بنے یہ سب کچھ دیکھتی رہ جائے۔
گندم کی اچھی فصل اور چینی کی وافر پیداوار کے باوجود اگر حکومت ان دونوں چیزوں کو بیرون ملک سے درآمد کرنے کا فیصلہ کر رہی ہے تو بہت بڑا المیہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت سیدھے طریقے سے اس چور بازاری اور ناجائز منافع خوری کو روکنے میں ناکام ہو گئی ہے اور درآمدی اجناس سے ان کی کمر توڑنا چاہتی ہے سوال یہ ہے کہ کیا گندم اور چینی درآمد کرنے سے ان کی قیمتیں کم ہو جائیں گی؟ حکومت ان کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہتی ہے یا ان کی قیمتیں کم کرنے کی نیت سے درآمد کر رہی ہے۔ اگر درآمد کے بعد بھی لوگوں کو آٹا اور چینی اسی بھاؤ ملنی ہے تو حکومت آج ہی ان بڑھی ہوئی قیمتوں پر آٹا اور چینی بیچنے کی اجازت دے دے، اگر ان کی کمی کہیں نظر آئے تو کہئے، یہ حقیقت پہلے پٹرول کے ضمن میں بھی دیکھی جا چکی ہے جب کم قیمت پر اسے نایاب کر دیا گیا، قیمت بڑھی تو کوئی لینے والا نہیں تھا، کیا حکومت اپنی اس ناکامی کو تسلیم کرنے پر تیار ہے۔ پٹرول کے بغیر تو گزارا ہو سکتا ہے، آٹے کے بغیر تو لوگ زندہ بھی نہیں رہ سکتے۔ آخر خرابی کہاں ہے کہ پنجاب جیسا گندم پیدا کرنے والا سب سے بڑا صوبہ آٹے کے بحران میں مبتلا ہو چکا ہے کیا فلور ملز مافیا نے حکومت کو ناکام کر دیا ہے، یا حکومت میں چھپے اس سرکاری مافیا نے جو گندم سپلائی کرتا ہے اور اس کا حساب نہیں رکھتا حکومت سے اگر کچھ نہیں ہو سکتا تو بھٹو دور کا راشن سسٹم ہی رائج کر دے، جس میں کوئی مڈل مین نہیں ہوتا تھا اور غریبوں کو کم از کم آٹا اور چینی تو سستے داموں مل جاتے تھے۔