پاکستان کا نیا نقشہ!
4اگست کو وزیراعظم پاکستان نے پاکستان کے نئے پولیٹیکل میپ کی نقاب کشائی کی جس میں پورے کشمیر کو، بعض خبروں کے مطابق پاکستان کا علاقہ ظاہر کیا گیا ہے۔ خود ہمارے اپنے اخبار (پاکستان) نے کل 5اگست کو جو شہ سرخی لگائی وہ یہ تھی:”مقبوضہ کشمیر: پاکستان کا حصہ، نیا نقشہ جاری“…… یہ سرخی غلط ہے۔اس نقشے میں کہیں بھی یہ نہیں دکھایا اور بتایا گیا کہ مقبوضہ کشمیر، پاکستان کا حصہ ہے،اس نئے نقشے میں باقاعدہ لائن آف کنٹرول دکھائی گئی ہے اور وہ علاقہ جو 5اگست 2019ء کے بعد سے ہندوستانی نقشوں میں انڈین یونین کا حصہ دکھایا جا رہا تھا،اس میں ”باقاعدہ“ جلی حروف میں یہ عبارت لکھی ہوئی ہے:
انڈیا کی طرف سے غیر قانونی طور پر دکھایا جانے والا مقبوضہ جموں اور کشمیر
(متنازعہ علاقہ جس کا قطعی اور آخری سٹیٹس اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق طے کیا جانا باقی ہے)
اس نئے سیاسی نقشے میں جونا گڑھ اور ماناوادر کا ایک چھوٹا اور سر کریک کا بھی ایک چھوٹا نقشہ شامل ہے۔ فاٹا کو چونکہ خیبرپختونخوا میں ضم کیا جا چکا ہے،اس لئے ان علاقوں کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم شدہ دکھایا گیا ہے۔ گلگت اور بلتستان چونکہ طے شدہ پاکستانی علاقے ہیں اس لئے ان کو اسی رنگ میں ظاہر کیا گیا ہے، جس میں جموں اور کشمیر کو دکھایا گیا ہے۔اگر آپ زیادہ غور سے دیکھیں تو لداخ کو ”آف وائٹ کلر“ میں دکھایا گیا ہے، جس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ یہ علاقہ(لداخ) جموں و کشمیر کا حصہ نہیں، بلکہ انڈیا اور چائنا کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے۔اس کے ساتھ اقصائے چین کا علاقہ بھی اسی سفید رنگ میں ظاہر کیا گیا ہے۔
میرے خیال میں اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ اقصائے چین اور لداغ دونوں چین کے علاقے ہیں جن پر اول الذکر کو انڈیا نے اپنے نقشوں میں ”مقبوضہ چین“ اور آخر الذکر کو اپنا علاقہ بنا رکھا ہے۔اس نقشے میں موجودہ لائن آف کنٹرول کو درہئ قراقرم تک لے جایا گیا ہے۔
1984ء میں جب انڈیا نے سیاچن گلیشیر پر قبضہ کیا تھا تو یہ درہ پاکستان کے کنٹرول میں تھا اور اس کو استعمال کرنے کے لئے بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کو پرمٹ، پاکستان کی طرف سے جاری کئے جاتے تھے۔1984ء میں انڈیا نے آپریشن ”میگ دود“ لانچ کر کے نہ صرف تین چوتھائی سیاچن گلیشیر پر قبضہ کر لیا، بلکہ درہئ قراقرم پر بھی قابض ہو گیا۔یہ درہ چین کی طرف سے پاکستان میں داخل ہونے کا قدیم راستہ اور گیٹ وے بھی ہے اس لئے بڑی سٹرٹیجک اہمیت کا درہ ہے۔ انڈیا نے اس درے کی حفاظت کے لئے اس کے جنوب میں صرف آٹھ میل پر واقع ایک قدیم شہر(دولت بیگ) پر ایک ملٹری پوسٹ قائم کر دی۔یہ عسکری چوکی، اب ایک بریگیڈ سائز کی کنٹونمنٹ بن چکی ہے اور اس کی ائر فیلڈ اتنی بڑی ہے کہ اس پر بڑے بڑے ٹرانسپورٹ طیارے لینڈنگ اور ٹیک آف کر سکتے ہیں (مثلا روس کےAN-32،AN-25،1L-76 اور امریکہ کےC-17،C-130J وغیرہ) انہی دیو ہیکل ٹرانسپورٹ طیاروں کے ذریعے انڈیا نے اپنا مین بیٹل ٹینک (MBT)ٹی90- دولت بیگ اولدی کینٹ میں صف بند کر دیا ہے تاکہ چین اگر درہئ قراقرم کی راہ سے اس پوسٹ پر حملہ آور ہو تو اس کا مقابلہ کیا جا سکے۔
آپ کو (اور ساری دُنیا کو) معلوم ہے کہ انڈیا لداخ، جموں و کشمیر اور پاکستانی آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کو اپنے مقبوضات سمجھتا اور نقشوں پر دکھاتا چلا آ رہا ہے۔گلگت بلتستان کو اس نے(POK) ڈکلیئر کر رکھا ہے، یعنی (Pakistan Occupid Kashmir)…… اگر پاکستان نے اس نئے سیاسی نقشہ میں مقبوضہ جموں و کشمیر(IOK) لکھ دیا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔انڈیا خواہ مخواہ اس پر جِز بزِ ہو رہا ہے۔انڈیا میڈیا نے اس نقشے پر جو تبصرے کئے ہیں، ان کو فی الحال کسی اور مضمون/کالم میں ڈسکس کریں گے۔…… پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ یہ سیاسی نقشہ (Political Map) کیوں کہا جاتا ہے۔ کئی دوستوں نے فون کر کے دریافت کیا ہے کہ یہ پولیٹیکل میپ کیا چیز ہوتی ہے۔
اگر آپ نے کبھی غور سے کسی اٹلس کو دیکھا اور پڑھا ہے تو اس میں دو طرح کے نقشے دیئے ہوتے ہیں۔ ایک کو پولیٹیکل نقشہ کہتے ہیں اور دوسرے کو فزیکل نقشہ…… سیاسی نقشہ میں اس ملک کی جغرافیائی تقسیم یعنی صوبے، ان کے دارالحکومت، بڑے بڑے شہر، سڑکیں، ریلوے کا نظام، ہوائی اڈے، بندرگاہیں، بڑے ڈاک خانے،ہسپتال وغیرہ کی لوکیشن دی ہوتی ہے، جبکہ طبعی(فزیکل) نقشے میں مختلف علاقوں کی آب و ہوا، موسم، سطح سمندر سے بلندی، پہاڑ، دریا، ندیاں، نالے، درجہ حرارت، شدید گرم اور شدید سرد قطعاتِ اراضی، زرعی پیداوار، معدنیات،ہیڈ ورکس، ڈیم، بیراج، درختوں کے ذخیرے،ریگستانی علاقے، پورے ملک کے علاقہ کی گسترش (Lay-out)، سال کے مختلف موسموں میں درجہ حرارت اور اس طرح کی وہ تمام معلومات اور ڈیٹا درج ہوتا ہے جو سیاسی نقشے میں نہیں دیا جا سکتا۔
پولیٹکل اور فزیکل نقشوں میں ایک بدیہی فرق یہ بھی ہوتا ہے کہ پولیٹیکل نقشہ بدلتا رہتا ہے۔ اگست1947ء سے پہلے پاکستان کہاں تھا اور انڈیا کہاں تھا؟ آج پاکستان کے جو صوبے ہیں ان کا وجود اور ان کے نام 1947ء میں اول تو نہیں تھے اور اگر تھے بھی تو مختلف تھے۔مثلاً پنجاب آدھا ہمارے حصے میں آیا اور آدھا انڈیا کے حصے میں،گلگت بلتستان کو شمالی علاقہ جات کہا جاتا تھا، خیبرپختونخوا کو شمال مغربی صوبہ سرحد اور فاٹا کے نام دیئے جاتے تھے۔البتہ سندھ اور بلوچستان کے پولیٹیکل نقشہ جات آج بھی وہی ہیں جو اگست1947ء میں تھے، ریلوے کا نظام وہی ہے، دو تین نہروں کا اضافہ ہوا ہے، کئی شہروں کے نام تبدیل کر دیئے گئے ہیں لیکن ان کی لوکیشن وہی ہے جو تھی۔
کسی بھی پولیٹیکل یا فزیکل نقشے کی اٹلس پر دیکھیں تو ان پر عمودی(360) اور افقی (180) لکیریں کھینچی ہوئی دکھائی دیں گی۔ عمودی لکیروں کو خطوط طول بلد(Longi tude) کہا جاتا ہے اور افقی لکیروں کو خطوط عرض بلد (Lati tude)کہتے ہیں۔ یہ خطوط کسی بھی شہر،گاؤں یا مقام وغیرہ کی لوکیشن متعین کرتے ہیں، جب ہم یہ کہتے ہیں کہ لاہور فلاں درجہ طول بلد اور فلاں درجہ عرض بلد پر واقع ہے تو کسی بھی اٹلس پر ان دونوں خطوط کو تلاش کر کے یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ خطوط ایک دوسرے کو کس پوائنٹ پر قطع کرتے ہیں، جس مقام پر قطع کریں وہی لاہور کی لوکیشن ہو گی……
میں نے اگر پولیٹکل اور فزیکل نقشوں کی وضاحت میں کوئی زائد از ضرورت تفصیل شامل کر دی ہو تو معذرت خواہ ہوں …… پاکستان نے جو نیا سیاسی نقشہ کل جاری کیا ہے اس میں صوبائی/علاقائی تقسیم، لائن آف کنٹرول، اور پانچوں دریا (ستلج، راوی، چناب، جہلم اور سندھ) دکھائے گئے ہیں۔
یہ نیا نقشہ نہ صرف پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کی مشاورت اور اتفاق رائے سے جاری کیا گیا ہے،بلکہ اس کے لئے چین کی وزارتِ خارجہ سے بھی پوری طرح ڈائیلاگ اور بحث و مباحثہ کے بعد ایسا کیا گیا ہے۔ یہ نقشہ دراصل بڑی مدت سے Overdue تھا۔ انڈیا نے گزشتہ برس نہ صرف لداخ، جموں اور کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کر دی تھی، بلکہ اس کی ڈیموگرافی(آبادی) کو تبدیل کرنے کے در پے بھی تھا۔…… اسرائیل قبل ازیں فلسطین میں ایسا کر چکا ہے۔…… اور میرا خیال ہے اسی کے مشورے پر انڈیا نے عمل کر کے آرٹیکل 370 ختم کیا۔ اس نقشے سے ایک اور فیصلہ بھی ہو گیا ہے اور وہ یہ کہ اب پاکستان اور انڈیا دونوں واقعی جنم جنم کے حریف بن چکے ہیں۔ 1870ء میں جرمن فرانکو وار میں جس طرح فرانس اور جرمنی ایک دوسرے کے دشمن بنے اور جس کی وجہ سے20ویں صدی کی دونوں جنگیں لڑی گئیں، اسی طرح کشمیر کا فیصلہ صرف اور صرف یا تو جنگ کر سکتی ہے یا بین الاقوامی برادری کا وہ دباؤ کہ جس کے تحت انڈیا کو مقبوضہ کشمیر ”آزاد“ کرنا پڑے گا۔
”جا چھوڑ دے میری وادی“ کا نیا نغمہ ئ آزادی بہت بروقت ہے کہ اس سے مظلوم کشمیریوں کے مورال کو بلند رکھنا مقصود ہے۔ یاد رکھیں اگر مورال گر جائے تو کوئی بھی قوم کشمیری ہو یا غیر کشمیری ریت کی دیوار کی طرح گر جاتی ہے!