اینکر عمران خان اور بزدار معاملہ، فیاض الحسن چوہان بھی میدان میں۔۔۔
وزیراطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے اینکر عمران خان کی طرف سے وزیراعلیٰ عثمان بزدار پر لگائے جانے والے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ پچھلے کئی ہفتوں سے ٹی وی اینکر عمران خان کی طرف سے مسلسل وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے اوپر الزام تراشی اور دشنام طرازی کی جارہی ہے، اینکر عمران خان کی جانب سے جناب عثمان بزدار کو بدنام کرنے کی جو کوشش کی گئی مجبوراً اس کا جواب عوام کے سامنے رکھنا پڑ رہا ہے۔ میرا عمران خان سے کوئی اتنا زیادہ قریبی تعلق نہیں ہے لیکن میں پھر بھی انہیں اس لیے پسند کرتا تھا کہ وہ اچھے طریقے سے بطور اینکر اپنا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ میں نے 25 جولائی کو ان سے گزارش کہ تھی کہ آپ جس پریکٹس میں لگے ہوئے ہیں وہ اخلاقی طور پر درست نہیں ہے، ایک ایسے معزز شخص جو کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں ان پر آپ اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے جس طرز تخاطب کو اختیار کرکے الزام تراشی کر رہے ہیں وہ طریقہ کار ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ جب تک مجھ سے ملاقات نہیں کرلیتے تب تک کوئی ویڈیو نہیں لگائیں گے لیکن پھر بھی انہوں نے 2 مزید ایسی ہی ویڈیوز اپ لوڈ کیں۔ پنجاب حکومت کے ترجمان اور وزیر اعلیٰ جناب عثمان بزدار کے دوست اور کولیگ کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کے الزامات کا جواب دیا جائے۔
عمران خان صاحب نے جس انداز میں جناب عثمان بزدار کو مخاطب کیا ہے وہ انتہائی غیر اخلاقی ہے، اللہ پاک جس کو عزت دیتا ہے تو اس کی عزت کرنی چاہیے، یہاں تک کہ کوئی عدالت اس کو مجرم قرار نہ دے تب تک آپ کا یہ حق نہیں ہے کہ آپ انہیں اس انداز میں مخاطب کریں۔ اللہ نے جناب عثمان بزدار کو عزت دی ہے، یہ نہ میرے اور نہ آپ کے حصے میں آئی ، جن کے حصے میں عزت آئی اللہ نے انہیں وزیر اعلیٰ بنادیا۔ عمران خان صاحب ! ایک اچھے اینکر کی حیثیت سے آپ کا فرض بنتا ہے کہ الزام بھی لگانا ہے تو اخلاقیات کا دامن نہ چھوڑیں، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار صاحب نواز شریف کی طرح مجرم نہیں ہیں بلکہ وہ تو ملزم بھی نہیں ہیں اس لیے آپ کا یہ حق نہیں بنتا کہ آپ اپنی عدالت سجا کر خود ہی وکیل اور جج بن کر فیصلہ سنادیں، یہ کوئی اچھی روایت نہیں ہے، اس طرح اگر عدالتیں سجنا شروع ہوگئیں تو ہر بندہ ہی دوسرے کی عزت کا جنازہ نکال سکتا ہے۔
عزت اور ذلت کے فیصلے زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر ہوتے ہیں، اور اللہ عزت اور ذلت کے فیصلے نیت کی بنا پر کرتا ہے، اگر یہ فیصلے انسان کے ہاتھ میں ہوتے تو انسانیت ذلیل و خوار ہوجاتی۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی ان ویڈیوز کے ذریعے وزیر اعلیٰ جناب عثمان بزدار کی عزت میں کوئی کمی آجائے گی تو یہ آپ کی خوش فہمی ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی ساری باتیں سچی ہیں تو عزتوں کے جنازے نکالنا کسی تہذیب یا انداز میں درست نہیں ، اگر آپ کے پاس ثبوت ہیں تو آپ عدالت میں جائیں ، اگر آپ عدالت ، نیب یا تحقیقاتی اداروں کے پاس نہیں جاتے تو آپ اپنی ذات، شخصیت اور تربیت کے اوپر سوالیہ نشان کھڑا کر رہے ہیں۔ آج آپ کے تمام سوالوں کے جواب دوں گا، قوم سے گزارش ہے کہ وہ تمام حقائق کو دیکھ کر فیصلہ کرے کہ زرد صحافت کیا ہوتی ہے۔
عمران خان صاحب نے الزام لگایا کہ جناب عثمان بزدار نے بطور تحصیل ناظم اپنی تحصیل کا سارا ریکارڈ جلوادیا جس سے ان کی بد دیانتی کے تمام ثبوت خاکستر ہوگئے۔
اینکر عمران خان کے اس الزام کا جواب وہ تصدیقی سرٹیفکیٹ ہے جو تحصیل کونس کی جانب سے جاری ہوا ہے۔ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ 2012 تک سردار عثمان بزدار صاحب تحصیل ناظم رہے، اس وقت تک اور اب تک یا پوری تاریخ کے اندر اس تحصیل کا ریکارڈ جلنے کا کوئی بھی واقعہ کبھی بھی پیش نہیں آیا۔
عمران خان صاحب نے الزام لگایا کہ جناب سردار عثمان بزدار نے قبائلی علاقہ جات کے ترقیاتی پراجیکٹس کے اندر کروڑوں روپے کی کرپشن کی۔
آپ کی خدمت میں گزارش ہے کہ قبائلی علاقہ جات کے فنڈز کمیونٹی بیسڈ ہوتے ہیں یعنی 80 فیصد حکومت اور 20 فیصد پیسے مقامی لوگ دیتے ہیں، اس کا چیک اینڈ بیلنس کا نظام بہت ہی سخت ہے۔ ٹی اے ڈی پی کی اپنی ویب سائٹ ہے جس پر ہر ایک پراجیکٹ کی تمام تفصیلات موجود ہیں، اس ویب سائٹ پر کوئی بھی پاکستانی کسی بھی پراجیکٹ کی تفصیلات دیکھ سکتا ہے۔
عمران خان نے یہ بھی الزام لگایا کہ جناب وزیر اعلیٰ پنجاب نے 250 ملین کا ٹھیکہ محسن کوریجہ نامی آدمی کو کو دیا جو ان کا ہمسایہ ہے۔
میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا ہمسایہ ہونا کوئی جرم ہے؟ اگر میرا یا آپ کا کوئی ہمسایہ غلط کام کرتا ہے تو کیا اس کے ذمہ دار ہم ہوں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ سیمنٹ فیکٹری تا زندہ پیر روڈ کے پراجیکٹ کے حوالے سے شکایات آئیں کہ ناقص کام ہوا ہے، 5 مئی 2020 کو اسی محسن کوریجہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ اگر آپ کی بات کو سچ مان لیا جائے تو سردار عثمان بزدار عجیب قسم کے محسن ہوں گے جنہوں نے پہلے احسان کیا اور پھر خود ہی اسی کے خلاف پرچہ بھی کٹوادیا۔
آپ نے یہ الزام بھی لگایا کہ عثمان بزدار کے بھائی طاہر بزدار صاحب کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو اپنے ڈیرے پر بلا کر مختلف سکیموں کے افتتاح کرتے ہیں۔
عمران خان صاحب ! آپ اینکر ہیں، اگر سیاستدان ہوتے تو یہ سوال نہ کرتے، میں بطور وزیر اطلاعات لاہور میں ہوتا ہوں، پیچھے میرا حلقہ ہے جس کے مسائل ہیں ، تو ان معاملات کو میرے بھائی، بیٹے یا کسی عزیز نے ہی دیکھنا ہے۔ اگر عثمان بزدار صاحب اپنے سارے حلقے کو اگنور کرکے پورے پنجاب کو ڈیل کر رہے ہیں تو ان کی سیاست بھی تو کسی نے دیکھنی ہے۔ ابھی محرم آرہی ہے ، اس حوالے سے یا کسی بھی بڑے ایونٹ کی صورت میں سرکاری ملازمین معاملات کو بہتر طریقے سے چلانے کیلئے مقامی ایم این ایز یا ایم پی ایز یا ان کے نمائندوں سے رابطہ کرتے ہیں، آپ نے یہ انتہائی گھٹیا قسم کا بے بنیاد الزام عائد کیا ہے۔
عمران خان صاحب نے الزام لگایا کہ جناب عثمان بزدار نے اپنے بھائی جعفر بزدار کو ڈی جی خان بھیجا جہاں انہوں نے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کا فیتہ کاٹا۔
آپ کی خدمت میں گزارش ہے کہ اگر آپ اس ایونٹ کی تصویر دیکھیں تو واضح ہوگا کہ وہاں ہمارے مشیر حنیف پتافی صاحب اور ایم پی اے ڈاکٹر شاہینہ نجیب کھوسہ صاحبہ فیتہ کاٹ رہے ہیں جبکہ عثمان بزدار صاحب کے بھائی نے دور کھڑے ہو کر صرف ہاتھ رکھا ہوا ہے، اصل فیتہ حنیف پتافی صاحب نے کاٹا ہے اور وہی مہمان خصوصی تھے۔ ڈیرہ غازی خان سے فاروق لغاری صاحب صدر، دوست کھوسہ صاحب وزیر اعلیٰ اور ان کے والد صاحب گورنر رہے ہیں لیکن انہوں نے وہ کام نہیں کیا جو عثمان بزدار صاحب کر رہے ہیں، آپ کو تو اس بات کی داد دینی چاہیے تھی کہ عثمان بزدار صاحب نے اس علاقے میں سالڈ ویسٹ کا وہ ادارہ قائم کیا ہے جو بڑے بڑے شہروں میں نظر آتا ہے۔
آپ نے یہ الزام بھی لگایا کہ عثمان بزدار صاحب نے اپنے بھائی عمر بزدار کو غیر قانونی طریقے سے بارڈر ملٹری پولیس میں پرموشن دی۔
اس بات کا جواب یہ ہے کہ عمر بزدار صاحب 1994 میں 14 ویں گریڈ میں بارڈر ملٹری فورس میں بھرتی ہوئے، وہ اس وقت سے اب تک اسی گریڈ میں موجود تھے، ان کے علاوہ جتنے ملازمین بھرتی ہوئے ان کی 21 سالوں میں کوئی پرموشن نہیں ہوئی، 2009 میں ان کی پرموشن کے حوالے سے رولز بنے اور انہیں اب پرموشن دی گئی، یہ صرف عمر بزدار کو پرموشن نہیں دی گئی بلکہ تمام 64 افراد کو پرموشن دی گئی ہے۔ انہیں صرف پرموشن ہی نہیں بلکہ انہیں گاڑیاں، تھانے اور دیگر آلات بھی دیے گئے ہیں، آپ کی خدمت میں یہ بھی عرض کردوں کہ جناب عثمان بزدار کے بھائی میرٹ پر لسٹ میں دوسرے نمبر پر تھے، پورے ادارے کے ساتھ اگر ان کا بھائی بھی میرٹ پر پرموٹ ہوگیا تو یہ کوئی اتنا بڑا ظلم نہیں کہ اس پر طوفانِ بدتمیزی اٹھایا جائے۔
عمران خان صاحب نے یہ بھی الزام لگایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے 2 کلومیٹر کے ایریا میں 25 سکول بنادیے، ہر جاننے والے کے ڈیرے میں سکول بنادیے جہاں کوئی سٹاف نہیں ہے۔
جناب عمران خان صاحب ! مجھے آپ کی انفارمیشن پر انتہائی افسوس ہے، شہباز شریف کے 2008 سے 2013 تک کے رجیم میں ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ سکروٹنی کمیٹی نے یہ سکول بنائے تھے، اس میں سردار عثمان بزدار صاحب کا ایک فیصد بھی کوئی کردار نہیں ہے۔ آپ کس طرح منہ اٹھا کر اسے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار صاحب کےکھاتے میں ڈال رہے ہیں؟
جناب اینکر صاحب نے سب سے زیادہ جس سوال پر دھوم مچائی وہ یہ تھا کہ جناب عثمان بزدار صاحب نے لاہور رنگ روڈ ایس ایل تھری پراجیکٹ کو بیک جنبشِ قلم کوادیا۔
عمران خان صاحب 9 اکتوبر 2018 کو محترمہ جسٹس عائشہ ملک صاحبہ نے ICA-1439/2017 کے تحت حکم امتناع جاری کیا جو آج تک موجود ہے۔ اس پر سونے پرسہاگہ یہ کہ 26 جون 2020 کو زویا یاسر، محمد الیاس چوہدری اور محمد فیاض چوہدری نے بھی سٹے لے لیا، اب ان دونوں سٹے آرڈرز کو یکجا کرکے محترم چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے 12 اگست کی تاریخ دی ہوئی ہے، عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی اسے قبول کریں گے کیونکہ شروع دن سے پی ٹی آئی کا یہ منشور رہا ہے کہ ہم عدالتوں سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرح آنکھ مچولی نہیں کریں گے، ہم عدالتوں سے زِگ زیگ کے قائل نہیں ہیں، ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں اور ان کے فیصلوں پر سرِ تسلیم خم کرتے ہیں۔
عمران خان صاحب ! میں نے آپ کے سارے سوالات اور سارے جوابات رکھ دیے ہیں، اگر یہ پریکٹس شروع ہوگئی کہ کوئی بھی یوٹیوب پر اپنی عدالت سجالے اور کسی کی عزت کا جنازہ نکال دے تو یہ مہذب معاشرہ نہیں رہے گا بلکہ بنانا ریاست بن جائے گی۔ آپ نے عثمان بزدار صاحب کو جس انداز میں مخاطب کیا وہ کوئی خاندانی شخص نہیں کرسکتا، خدا کا واسطہ ہے کہ اپنا اندازِ تخاطب تہذیب کے دائرے میں کرلیں، ہم آپ کے خلاف عدالت جارہے ہیں، آپ نے اپنا فرض پورا نہیں کیا ، آپ نے کسی کی عزت اچھال کر ، اپنی ریٹنگ بڑھا کر ڈالر کمانے کی کوشش کی ہے، یہ مناسب نہیں ہے کہ اپنے ڈیڑھ پاو¿ کے گوشت کے پیچھے آپ کسی کی پوری بھینس ہی ذبح کردیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ اسے عزت اور بے عزتی کا ایشو بنانے کی بجائے اس سے توبہ تائب ہوں گے اور اس طرح کسی کے خلاف بھی اپنی عدالت نہیں سجائیں گے۔