مظالم، مہاجرین کے چہروں پر ہمیشہ اداسی دیکھی، عبید الرحمن
ملتان(سٹی رپورٹر)ضلع ملتان کی تحصیل جلال پور پیر والا کے رہائشی فقیر عبید الرحمن نقشبندی نے کہا ہے کہ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو میری عمر تقریبا 8سال تھی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ قیام پاکستان سے قبل ہمارے علاقے کے آس پاس ہندو بڑی تعداد میں رہتے تھے جبکہ شہر میں ہندو کاروبار کرتے تھے اسی دوران مجھے اپنے خاندان کی خواتین کو دھاڑے مارتے ہوئے روتے دیکھا ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہوا۔بعد میں معلوم ہوا کہ بھارت کے مختلف شہروں سے مہاجرین (بقیہ نمبر18صفحہ6پر)
کے قافلے جلال پور آئے ہیں جن کی حالت بہت بری ہے جن کے پاس کھانے پینے سمیت کسی قسم کا کوئی سامان نہیں بھوکے پیاسے اور بچے ننگے جسم ہیں۔خواتین اور بزرگوں کے جسموں پر گہرے زخم ہیں۔پھر ایسا ہوا کہ پورے کا پورا گاؤں ان کو دیکھنے اورملنے کے لئے وہاں جانے لگے بلکہ ان کے کھانے پینے کا سامان اور کپڑے دیئے گئے یہ سارے باتیں سن کر میں اپنے ہم عمر بچوں کے ہمراہ وہاں گیا تو دیکھتے ہی اوسا خطا ہو گئے۔کیونکہ بھارت سے آئے ہوئے مہاجرین کا قافلہ ایک پرانی اور بڑی ساری حویلی جو کہ ہندو چھوڑ کر گئے تھے اس کے صحن میں بے سدھ بیٹھے اور لیٹے ہوئے تھے جنکی آنکھوں کا پانی رو رو کر خشک ہو گیا تھا۔سخت بھوک ہونے کے باوجود کھانے سامنے رکھا ہوا تھا لیکن کوئی بھی کھانے کو ہاتھ نہیں لگاتا تھا۔بعد میں معلوم ہوا کہ جب یہ قافلہ بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آ رہا تھا تو راستے میں ان کے قافلے پر حملہ ہو گیا جس کی وجہ سے کئی افراد شہید ہو گئے جبکہ ان کی تین نوجوان بچیوں نے عزتیں بچانے کے لئے کنویں میں چھلانگ لگا لی تھی۔فقیر عبید الرحمن نقشبندی کا کہنا ہے کہ وہ مہاجرین کئی مہینے جلال پور میں رہے ہم نے کبھی ان کے چہروں پر ہنسی نہیں دیکھی بعد ازاں وہ جلال پور سے کہیں اور ہجرت کرکے چلے گئے، تھے۔