نواب چھتاری نے عشائیہ کا انتظام کیا، علی گڑھ کی ممتاز شخصیات نے شرکت کی، ہم نے اُن کے گھر میں قائداعظم کے ساتھ بہت سی تصاویر دیکھیں 

 نواب چھتاری نے عشائیہ کا انتظام کیا، علی گڑھ کی ممتاز شخصیات نے شرکت کی، ہم ...
 نواب چھتاری نے عشائیہ کا انتظام کیا، علی گڑھ کی ممتاز شخصیات نے شرکت کی، ہم نے اُن کے گھر میں قائداعظم کے ساتھ بہت سی تصاویر دیکھیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:184
 ہمیں علی گڑھ یونیورسٹی کی یونین بلڈنگ میں واقع تاریخی سٹریچی ہال میں آنے کی دعوت دی گئی تاکہ وہاں کے روایتی انداز میں ہمارے وفد  کو خوش آمدید کہا جائے یہ طلبہ یونین 1884 میں خودسر سید احمد خان نے برطانیہ کی مشہور آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کی یونین کی طرز پر قائم کی تھی۔ جس نے طلبہ کو ابتداء میں تو یونیورسٹی اور کیمپس کی اندرونی سیاسی اور ثقافتی سرگرمیوں کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا لیکن بعد میں یہاں سے برصغیر پاک و ہند کے اکثر مسلمان لیڈر وں کو مستقبل کے سیاسی حالات کو سمجھنے اور ان سے نبٹنے کی تربیت بھی ملتی رہی۔ یہاں ہمیں شرکاء کی بہت پُرجوش تقریریں سننے کو ملیں اور ایک بار پھر پرانی روایت کے تحت بالکونی میں سے ہم پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ مشہور سٹریچی ہال میں کچھ وقت گزارنے کا یہ ایک بہت ہی دلچسپ اور مسرور کن تجربہ تھا۔ ہمیں خواتین کے کالج میں بھی جانے کا موقع ملا جہاں کی پرنسپل نے کالج کی تاریخ اور اس کی شاندار کامیابیوں کے بارے میں ہمیں آگاہ کیا۔ ہمارے وفد میں شامل کچھ افراد نے، جو علیگڑھ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر چکے تھے، ازراہ تفنن ہمیں بتایا کہ طالب علمی کی زمانے میں وہ کس طرح خواتین کے اس کالج کے آس پاس منڈلایا کرتے تھے۔ کیوں کہ ان کی بیویاں ان کا یہ اعتراف سننے کے لیے یہاں موجود نہیں تھیں،تبھی سے تو وہ اتنی دیدہ دلیری سے اپنے جوانی کے کارنامے بیان کر رہے تھے۔
یہاں نواب چھتاری نے، جن کے ایک بھائی پاکستان ہجرت کر چکے تھے اور وہاں وزارت خارجہ میں اعلیٰ افسر تھے، ہمارے وفد کے اعزا زمیں ایک شاہانہ عشائیہ کا انتظام کیا تھا۔ جس میں علی گڑھ کی بہت سی ممتاز شخصیات نے شرکت کی۔ اُن کے گھر میں قائداعظم کے ساتھ بہت سی تصاویر بھی ہم نے دیکھیں۔ پھر مجھے اور وسیمہ کو زین الدین نے بھی کھانے پر بلایا۔ بہت برسوں بعد یہ ان کے اور ان کی شریک حیات کے ساتھ ایک یادگار ملاقات تھی۔ہم نے وہاں بڑی دیر تک بیٹھ کر پرانی یادیں تازہ کیں۔ جن میں مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں دوران تعلیم، بعد ازاں سعودی عرب میں قیام اور اب اپنے اپنے وطن میں رہتے ہوئے زندگی کے تجربات پر تبادلہ خیال کیا اور خوب محظوظ ہوئے۔ ایک دوسرے کے بچوں اور ان کی تعلیم کے بارے میں جاننے کے لیے بھی تجسس تھا، اس پر بھی گفتگو ہوئی۔ ہم نے ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار پر بھی تبادلہ خیال کیا، جو میں نے آ کر محسوس کئے تھے۔ ہمارے لیے زین اور ان کے اہل خانہ سے ملاقات کا یہ ایک یادگار موقع تھا اور جب بھی علی گڑھ کے دورے کی بات ہوگی تو وہ  یقیناً یاد آئیں گے۔
 اس کے بعد وقت نکال کر ہم نے علی گڑھ کے قصبے کی کچھ جھلکیاں بھی دیکھیں۔ یہاں بندر اور گائے سڑکوں پر بلا جھجھک اور آوارہ گھوم پھر رہی تھیں اور کسی کی ہمت نہیں تھی کہ ان کو ہاتھ بھی لگا سکیں۔ کیوں کہ ہندو دھرم کے مطابق یہ ان کے دیوی دیوتاؤں میں شامل تھے۔ یہاں آ کر علی گڑھ کا دورہ ختم ہوا۔ ہم نے وفد میں ہمارے ساتھ آئے ہوئے شرکاء سے الوداعی ملاقات کی اور علی گڑھ یونیورسٹی کی بہت خوبصورت یادیں سمیٹے ہوئے اپنی اگلی منزل یعنی دہلی کی ریل گاڑی پر سوار ہوگئے۔ یہ بات بہر حال تسلیم کرنا پڑے گی کہ دیگر شعبوں کی طرح انڈین ریلوے نے پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ترقی کر لی تھی۔ انھوں نے نہ صرف نئی لائنیں بچھا کر اپنے ریلوے کے نظام کو کئی گنا بڑھا لیا ہے بلکہ گاڑیوں، ریلوے تنصیبات اور خدمات پر بھی بے تحاشہ کام کیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان ریلوینے نہ صر ف کئی اسٹیشن بند کردئیے بلکہ متعدد برانچ لائنوں کو بھی ختم کر دیا اور وہاں گاڑیوں کی آمد و رفت مکمل طور پربند کردی۔ یہ اس ریلوے سروس سے بھی کہیں زیادہ نیچے گر چکی ہے جو تقسیم ہند کے موقع پر ہمارے حصے میں آئی تھیں۔ کسی بھی ملک کا ریلوے کا نظام سب سے سستا اور محفوظ ذریعہ سفر ہوتا ہے۔ جو کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں ایک بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ بہر حال دو گھنٹے کے آرام دہ سفر کے بعد ہم دہلی ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے جہاں ریاض میں ہماری دیرینہ اور پیاری دوست چاند ہمارے استقبال کے لیے موجود تھیں جہاں سے انھوں نے ہمیں اپنی گاڑی میں بٹھایا اور اپنے گھر لے گئیں۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -