شدت پسندی میں کمی آ گئی: سروے رپورٹ
لندن (بیورو رپورٹ) عالمی شدت پسندی کے بارے میں کیے جانے والے ایک جائزے کے مطابق دو ہزار سات کے بعد سے شدت پسندی کے واقعات میں کمی آئی ہے انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس کی جانب سے 'عالمی شدت پسندی کا انڈیکس' تیار کیا گیا ہے اس جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ دو ہزار دو سے دو ہزار سات تک شدت پسندی کے واقعات میں شدید اضافہ ہوا۔ جائزے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دو ہزار دو اور دو ہزار گیارہ کے درمیان ہونے والے شدت پسندی کے واقعات میں ہلاک ہونے والے ایک تہائی سے زیادہ افراد کا تعلق عراق سے تھا اس انڈیکس میں ایک سو اٹھاون ممالک کی درجہ بندی کی گئی ہے اور اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں شدت پسندی کے اعتبار سے ان ممالک میں کیا حالات رہے جائزے میں کہا گیا ہے کہ شدت پسندی کے واقعات میں سب سے زیادہ شدت دو ہزار پانچ اور سات کے درمیان آئی تھی اور اس دوران عراق میں حالات سب سے زیادہ خراب تھے رپورٹ کے مطابق دو ہزار دو اور نو کے درمیان ہونے والے شدت پسندی کے واقعات میں سے بارہ فیصد پاکستان میں، گیارہ فیصد بھارت میں اور دس فیصد افغانستان میں ہوئے ہیں۔ وہیں تھائی لینڈ میں اس نوعیت کے واقعات پانچ فیصد، فلپائن اور روس میں چار فیصد کے قریب ہوئے ہیں رپورٹ میں کہا گیا ہے ' دو ہزار تین اور سات کے درمیان کی صورتحال کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ شدت پسندی کے واقعات میں کمی آئی ہے جس سے بہتر حالات کی امید پیدا ہوتی ہے تاہم شام اور مشرقِ وسطی کے دیگر ممالک میں بگڑتے ہوئے حالات صورتحال کو پوری طرح بدل سکتے ہیںرپورٹ کے مطابق مغربی یورپ کے ممالک میں ہونے والے حملوں میں دو ہزار دو سے اب تک کمی آئی ہے، البتہ وہاں اب بھی ان جان لیوا حملوں میں ہونے والی اموات کی شرح امریکہ سے انیس فیصد زیادہ ہے واضح رہے کہ اس جائزے میں نائن الیون کے حملوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے جائزے کے مطابق مغربی یورپ اور لاطینی امریکہ کے بعد شمالی امریکہ ایسا خطہ ہے جہاں شدت پسندی کے واقعات بہت کم ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دو ہزار دو اور گیارہ کے درمیان پوری دنیا میں اکتیس ممالک ایسے ہیں جہاں ایک بھی شدت پسندانہ حملہ نہیں ہوا ہے۔ جائزے میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں القاعدہ کمزور پڑی ہے اور دو ہزار گیارہ میں ہونے والے چار ہزار پانچ سو چھپن حملوں میں سے صرف ایک القاعدہ نے کیا ہے رپورٹ میں ایک اہم بات یہ بھی کہی گئی ہے کہ اوسط درجے سے کم آمدنی والے ممالک کی نسبت کم آمدنی والے ممالک میں شدت پسندانہ حملوں کے امکانات کم ہیں۔