کیا ہم غیرت مند قوم ہیں؟

یادش بخیر۔ عراق کے ایک بے حد ”جولی“وزیر اطلاعات ہوا کرتے تھے، نام تھا ان کا سعید ال صحف، موصوف عراق جنگ کے دوران خاصے پاپولر ہوئے، ان کی وجہ شہرت وہ بیانات تھے جو انہوں نے جنگ کے دنوں میں دئیے جب امریکی فوجیں بغداد کا گھیراﺅ کر رہی تھیں۔ وزیر صاحب روزانہ بغداد کے مشہور زمانہ فلسطین ہوٹل میں (نہ جانے کہاںسے) نمودار ہوتے اور غیر ملکی صحافیوں کو ایسی شاندار بریفنگ دیتے کہ ہٹلر کا پروپیگنڈا منسٹر جوزف گوئبلزاگر زندہ ہوتا تویقیناً شرما جاتا۔ان کے بیانات کچھ اس قسم کے ہوتے کہ ”امریکی فوجیوں کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور ہم انہیں گھیرے میں لے کر ختم کر دیں گے.....امریکی ہتھیار ڈالیں گے یا اپنے ٹینکوں میں جل کر بھسم ہو جائیں گے.....وہ بغداد سے سو میل کے فاصلے پر بھی نہیں ،وہ کہیں نہیں ہیں ،وہ پورے عراق میں نہیں ہیں ،یہ سب فریب نظر ہے ،امریکی اس فریب کو بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں “وغیرہ وغیرہ۔اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ ہے۔عراق پر قبضے کے بعد امریکیوں نے تاش کا ایک پیک ترتیب دیاجس میں مطلوب عراقی لیڈران کی تصاویر تھیں جن میں صدام حسین کو بادشاہ جبکہ اس وزیر اطلاعات کو جوکر دکھایا گیا تھا، امریکیوں نے اسے گرفتار کرلیا تھا مگر بعد ازاںچھوڑ دیا۔
آج اس معصوم وزیر کی یاد مجھے اس لئے آئی کیونکہ جس قسم کا پروپیگنڈا اس نے عراقی جنگ کے دوران کیا تھا اسی قسم کا پروپیگنڈا آج پاکستان میں دہشت گردوں کے حمایتی کر رہے ہیں۔ پروپیگنڈادراصل اس تکنیک کا نام ہے جس کے ذریعے معاشرے میں تصویر کاصرف ایک رخ دکھا کر کسی خاص مسئلے پر عوام کی رائے تبدیل کی جا سکے، اس مقصد کے لئے ادھورے یا نا مکمل حقائق کا سہارا لیا جاتا ہے اور انہیں اس تکرار کے ساتھ دہرایا جاتا ہے کہ بالآخر عوام اسے سچ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں یا ابہام کا شکار ہوجاتے ہیں۔دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے بھی پچھلے کئی برسوںسے مسلسل ایک مخصوص پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے لہٰذاضرور ی ہے کہ اسی تکرار کے ساتھ اسے رد کیا جائے۔ آج کل یہ پروپیگنڈا کرنے والے زور و شور سے قوم کی ”غیرت“ کو للکاررہے ہیں ،تو ذر ا دیکھتے ہیں اس للکار میں کتنا دم ہے :
1۔یہ جنگ شروع کیسے ہوئی؟ 9/11کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرنے سے پہلے مطالبہ کیا کہ اسامہ بن لادن کو اس کے حوالے کر دیا جائے مگر طالبان کی ”غیور“ حکومت نے یہ بات نہیں مانی اور عالمی دباﺅ کی پرواہ کئے بغیر جواب دیا کہ شیخ صاحب ہمارے مہمان ہیںاور ہماری ”روایتی غیرت“ یہ گوارا نہیں کرتی کہ مہمان کو دشمن کے حوالے کیا جائے تاہم وہ خود کہیں چلے جائیں تو اور بات ہے۔اس ”غیرت مندانہ“سفارت کاری کے نتیجے میں 7اکتوبر 2001ء کو امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا ،اس حملے سے پہلے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل 12ستمبر2001ءکو قرارداد نمبر 1368اور 28ستمبر 2001ءکو قرارداد نمبر 1373کے ذریعے رکن ممالک کے دفاع کے حق کی توثیق کر چکی تھی جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب ہفتم کی شق 51میں دیا گیا ہے۔
2۔ہمارے پاس کیا چارا تھا؟ 9/11کے بعد امریکہ نے دنیا کو دو ٹوک پیغام دیا تھا کہ دہشت گردی کی اس جنگ میں جو اس کے ساتھ نہیں اسے امریکہ کا دشمن تصور کیا جائے گا، اس کے بعد ہمارے پاس کیا آپشن باقی رہ جاتا تھا؟چپ چاپ بیٹھ جا تے یا افغانستان میں طالبان کے ساتھ مل کر امریکہ کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیتے ،ہر دو صورتوں میں امریکہ کا ساتھ نہ دینے کا مطلب تھا ”پتھر کے دور میں واپس جانا“ (رچرڈ آرمٹیج)۔اور پھر ہمیں یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں امریکہ بھارت کو ساتھ نہ ملا لے اور بھارت شمالی اتحاد کے ساتھ مل کر امریکی مفادات کو سہارا دے اور ہم منہ تکتے رہ جائیں۔
3۔ہمارا اس جنگ میں کیا کردار تھا؟ہم نے وہی کیا جو مجبوری کے عالم میں ہمیں کرنا چاہئے تھا،ہم نے امریکہ کو راہداری دی ،اسے سٹرٹیجک مدد دی اور القاعدہ کے مطلوب دہشت گرد جو ہمارے شہروں میں چھپے ہوئے تھے ،ڈھونڈ کر امریکہ کے حوالے کئے۔اس کام پر اعتراض کرنے والوں سے گذارش ہے کہ اوپر بیان کی گئی اقوام متحدہ کی قراردادیں ایک مرتبہ پھر پڑھ لیں،انہیں سمجھ آ جائے گی کہ ساری دنیا نے جس کام کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادیں منظور کی تھیں ،ہم نے وہی کچھ کیا۔
4۔باقی اسلامی اور ”غیور“ ممالک نے کیا حکمت عملی اپنائی؟یہ سوال خاصا دلچسپ ہے ،ہم تو ٹھہرے امریکہ کی ”غلامی“ کرنے والے، سو دیکھتے ہیں کہ باقی ”غیور اسلامی “ ممالک نے اس امریکی جنگ میں کیا کردار ادا کیا!ایران،جس کی ”غیرت“ کی مثال ہم چند ہفتے پہلے تک دیتے ہوئے نہیں تھکتے تھے اور کہتے تھے کہ ایران نے امریکی ڈرون مار گرایا ہے تو ہم کیوں نہیں گرا سکتے (حالانکہ ایران نے کبھی ڈرون نہیں مارا)،اسی ایران نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بعد گلبدین حکمت یار کو ملک بدر کر دیا،جبکہ ترکئی جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ اس نے امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کر دیا تھا،اس کی فوج سمیت متحدہ عرب امارات کے نیٹو میں شامل ہے اور امریکہ کے شانہ بشانہ طالبان کے خلاف لڑ رہی ہے جبکہ پاکستان نیٹو میں شامل نہیں۔مزید یہ کہ ہمارے علاوہ افغان طالبان کی حکومت کو جس برادر اسلامی ملک نے تسلیم کر رکھا تھا، 9/11ے بعد اس ملک نے اپنی حمات واپس لے لی۔
5۔جنگ کا نتیجہ کیا نکلا؟”غیور“ قوم کا کیا حال ہوا؟ اس جنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج لاکھوں افغان مرد ،عورتیں اور بچے در بدر ہیں ،مہلک بیماریوں میں مبتلا ہیں ،اپاہج ہیں اور زندہ لاشوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ افغانستان کا شمار دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں ہوتا ہے،بے روزگاری آسمان کو چھو رہی ہے اور ملک تا حال خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔جنگی جنون میں مبتلا جو لوگ پاکستان کو بے غیرتی کے طعنے دیتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اپنے بیوی بچوں سمیت افغانستان کی امیگریشن اپلائی کر دیں،حامد کرزئی انہیں اپنا چوغہ تحفے میں پیش کرے گا۔
6۔ڈرون حملے کیوں ہوتے ہیں،”ہاٹ پرسوٹ “ کیا ہے؟امریکہ نے افغانستان کے خلاف جنگ ڈکلیئر کر رکھی ہے لہٰذا امریکی افواج پر حملہ آور ہونے والوں کو ”تھیوری آف ہاٹ پرسوٹ “ کے تحت امریکہ ڈرون حملوں کے ذریعے ہلاک کرتا ہے ،اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی کے گھر ڈاکہ مارنے کے بعد ساتھ والے گھر میں چھپ جائے تو پولیس اس گھر میں بغیر وارنٹ کے گھس کر ڈاکو کو پکڑ سکتی ہے ،اسے ہاٹ پرسوٹ کہتے ہیں۔ اور قطع نظر اس تھیوری کے، ڈرون حملوں میں مرنے والوں کا غم دہشت گردی میں مرنے والے پچاس ہزار بے گناہوں کے غم سے بہر حال بڑا نہیں ،لیکن حال یہ ہے کہ ڈرون میں مرنے والے 900لوگوں کا پلڑا پچاس ہزار سے بھاری رہتا ہے کیونکہ ڈرون میڈ ان امریکہ ہے جبکہ خود کش بمبار میڈ ان پاکستان ہیں ،گھر کی مرغی دال برابر! 7۔بے غیرتی کا طعنہ دینے والے 2002ءمیں کس کے ساتھ کھڑے تھے؟امریکہ کی اس جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ ایک فوجی آمر پرویز مشرف نے کیا،اس پرویز مشرف نے 30اپریل 2002ءکوایک ریفرنڈم کروایا جب اس جنگ میں کودے ہمیں سات ماہ ہو چکے تھے ،اس وقت پرویز مشرف کا ساتھ دینے والے آج ”غیرت“ کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیںاور قوم کو غلامی سے نکلنے کا درس دے رہے ہیں، یہی نہیں بلکہ اکتوبر 2002ءمیں جب یہ امریکی جنگ ایک سال مکمل کر چکی تھی تب بھی کسی ”غیرت مند“ نے اسے الیکشن میں ایشو نہیں بنایا۔
سو خواتین و حضرات ، جو لوگ آج پاکستانیوں کو ”غیرت“ کا طعنہ دے کر ملک میں جنگی جنون برپا کرنا چاہتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اپنا یہ شوق افغانستان جیسے ”غیور“ ملک میں جاکر پورا کر لیں ،دیر نہ کریں،ورنہ امریکی نکل جائیں گے!
(بشکریہ:-جنگ، لاہور) ٭