عام آدمی کا جج

عام آدمی کا جج
 عام آدمی کا جج

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چودھر ی آئندہ ہفتے پاکستان کی عدلیہ کے سب سے بڑے عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ جسٹس چودھری عدلیہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیا سی تاریخ میں بھی طویل عرصے یاد رکھے جائیں گے۔ ان کی سربراہی میں زیر سماعت مقدمات میں جو فیصلے دیئے گئے اور عدالتی کارروائی کے دوران جو تبصرے ہوتے رہے اور ان کی تضحیک کی جاتی رہی ، ان کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔ مختلف حلقوں میں یہ سوال تیزی سے گردش کر رہا ہے کہ کیا جسٹس افتخار محمد چوہدری کے جانشین بھی اتنی ہی بے باکی کا ثبوت دے سکیں گے جس کا مظاہرہ وہ کیا کرتے تھے؟ آج کے پاکستان میں ایک اور چیف جسٹس محمد رستم کیانی المعروف ایم آر کیانی اپنی بے باکی اور اپنے فیصلوں کی وجہ سے لوگوں کو آج بھی یاد ہیں؟.... ” ایک بار جب مَیں سینئر جج تھا تو ایک شخص کا مقدمہ زائد المیعاد ہونے کی وجہ سے خارج ہوا تو اس نے کہا کہ عدالت تو نہ ہوئی ۔مَیں نے تلخی سے جواب دیا کہ کون کہتا ہے کہ یہ عدل و انصاف کی جگہ ہے۔ یہ تو کچہری ہے اور آپ یقین جانئے کہ میری ساری عدالتی زندگی اسی عدالت اور کچہری میں تواز ن قائم کرنے میں صرف ہوئی ہے “۔

پاکستان میں عدلیہ کے بارے میں ہمارا اجتماعی رویہ متنازعہ ہی رہا ہے۔ فیصلے جب لوگوں کے حق میں آتے ہیں تو عدلیہ کی تکریم کا ورد کرتے نہیں تھکتے ،لیکن جب کوئی فیصلہ ایسا آجائے جس کی وجہ سے ان کے مفادات پر زد آتی ہو تو پھر عدلیہ کا احترام جاتا رہتا ہے۔ جسٹس محمد رستم کیانی کا دور بھی اسی صورت حال سے دوچار رہا۔ قدرت اللہ شہاب کا شمار ماضی کے اہم ترین سرکاری افسران میں ہوتا ہے۔ ©© لائلپور ( اب فیصل آباد ) میں ایک تعلیمی ادارے میں تقریر کرتے ہوئے جسٹس محمد رستم کیانی پر بڑے سخت حملے کئے۔ ان کو سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ کسی ایسے شخص کو جو منصب قضا پر فائز ہو، یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ غیر متعلقہ سیاسی موضوعات کو زیر بحث لائے، جلسوں سے خطاب کرے، صدر مملکت پر طنزو مزاح کے تیر برسائے اور اخبارات میں اپنی تقریریں شائع کرا کے عدالت عالیہ کے چیف جسٹس کے عہدے کی حرمت کو خاک میں ملائے۔ قدرت اللہ شہاب کو اس کے علاوہ یہ اعتراض بھی تھا کہ جس حکومت سے تنخواہ مل رہی ہو، اسی کو تختہءمشق بنانا کہاں کی شرافت ہے۔ اگر ہمت ہے تو عدالت کے عہدئہ جلیلہ سے استعفا دیں، اس کے تحفظ سے دست بردار ہوں اور پھر میدان میں آکر ایک عام شہری کی طرح حکومت سے مخاطب ہوں©©“ ۔
پاکستان میں حکمرانوں کا عدلیہ کے ساتھ ہمیشہ عداوت والا رویہ رہا ہے۔ عداوت بہت نرم لفظ ہے، یہاں تو عدالتوں کی کھلے عام تضحیک کی جاتی رہی ہے۔ اگر عدالتیں ہتک عزت کے مقدمات بنانے پر آتیں تو ان کا اپنا کام دھرے کا دھرا ہی رہ جاتا۔ مقدمات کے سلسلے میں جسٹس افتخار چودھری کے احکامات پر عمل در آمد کی بجائے جس طرح رو گردانی کی جا تی ر ہی ، کان بند کئے گئے، آنکھیں بند رکھی گئیں ، وہ رویہ عیاں ہے کہ حکمرانوں اور ان کے ماتحت افسران کے دلوں میں عدلیہ کے لئے کتنا احترام موجود ہے؟ جسٹس کیانی ایک جگہ لکھتے ہیں: ” فوجی حکمت عملی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ساری توجہ اپنے ہدف پر مرکوز رکھی جائے ۔ مجھے شہاب (قدرت اللہ شہاب کی طرف اشارہ) سے کیا لینا ہے۔ میرا ہدف تو ایوب خان ہے، جس نے مسیحا کا روپ دھار لیا ہے۔ شہاب نے تو اپنے آقا کے کارندے کی حیثیت سے کام کر کے خود ہی اپنے آپ کو بے نقاب کر دیا ہے“۔ آج بھی دیکھیں یہ کارندے عدالت کے خلاف کس طرح متحرک ہیں۔ عدالت کا ہر حکم ان کے سر پر سے گزر جاتا ہے یا سرکاری فائلوں میں دبا دیا جاتا ہے۔
جسٹس محمدرستم کیانی نے ایک اور تقریر میں کہا تھا: ” ایران میں ایک شاعر تھا ،جس کا نام خواجہ حافظ تھا اور اس نے خال ہندو کے بدلے سمر قند و بخارا بخشنے کا وعدہ کیا تھا۔ بدخواہوں نے تیمور کے پاس جا کر اس کی چغلی کھائی کہ دیکھئے حضور آپ نے تو اتنی محنت سے سمر قند و بخارا فتح کئے اور یہ شخص ایک خال سیاہ کے بدلے انہیں مفت بخش رہا ہے۔ یہ چغلی کھانے والے ہر عہد میں ہوتے ہیں اور حافظان قلندر منش کے خلاف تیموران زمانہ کو اکساتے رہتے ہیں ۔ خود نہ تو سمر قند و بخارا فتح کر سکتے ہیں، نہ بخش سکتے ہیں۔ اوروں کو بھی بخشش سے روکتے ہیں اور بخشش بھی کس چیز کی؟ صرف ایک فکر آزاد کی جو دل کے تاریک ویرانوں میں اجالا کر دے“۔
جسٹس محمد رستم کیانی کی کتاب .... Not the whole truth....میں ان کی ایک تقریر موجود ہے۔ یہ تقریر انہوں نے 14اپریل 1960ءمیں پاکستان بار ایسوسی ایشن میں کی تھی۔ اپنی طویل تقریر میں ایک جگہ وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے دور میں مصر کے اس وقت کے گورنر کو ایک مراسلہ بھیجا تھا۔ اس مراسلے میں خلیفہ وقت فرماتے ہیں: ” اپنے درمیان میں سے بہترین شخص کو چیف جج منتخب کرو، ایسا شخص جسے گھریلو پریشانیوں نے گھیرا ہوا نہ ہو، ایسا شخص جسے مرعوب اور خوف زدہ نہ کیا جاسکے، ایسا شخص جو اکثر غلطیاں نہ کرتا ہو، ایساشخص جو ایک مرتبہ صحیح راستہ پا لے تو منہ نہ موڑے، ایسا شخص جو محوبالذات نہ ہو، ایسا شخص جو تمام حقائق جاننے سے قبل فیصلہ صادر نہ کرے، ایسا شخص جو فیصلے سے قبل موجود ہر شخص کی بات توجہ سے سنے اور تمام شکوک پر توجہ دے ، ایسا شخص جو واضح فیصلہ دینے سے قبل تمام صورت حال کا جائزہ لے، ایسا شخص جو وکیلوں کے دلائل پر ہی انحصار کرتے ہوئے اڑ نہ جائے، ایسا شخص جو صبر و تحمل کے ساتھ ہر نئے پہلو اور ا±جاگر کئے گئے نئے حقائق پر غور کرے اور جو سختی کے ساتھ غیر جانبدار رہ کر فیصلہ صادر کرے، ایسا شخص جسے بے جا تعریف و توصیف گمراہ نہ کر سکے، ایسا شخص جو اپنے عہدے پر نہال نہ ہو....
 لیکن ایسے شخص کی تلاش آسان نہیں۔ البتہ جب تم ایسے شخص کو عہدے کے لئے (چیف جج) منتخب کر لو تو اسے نہایت بہتر تنخواہ دو تاکہ وہ نہایت سکون کے ساتھ زندگی گزار سکے اور اپنے آپ کو ہر قسم کی تحریص سے محفوظ رکھ سکے۔ اپنے دربار میں اسے اتنا اونچا مقام دو کہ کوئی بھی اس کی حیثیت تک پہنچنے کا خواب بھی نہ دیکھ سکے، اتنا اونچا مقام کہ کوئی اس کی چغل خوری نہ کر سکے اور نہ ہی اسے کوئی سازش چھو سکے“ ۔ جسٹس کیانی نے اپنی تقریر میں کہا کہ جب مَیں نے یہ پڑھا کہ کوئی اس کی حیثیت تک پہنچنے کا خواب بھی نہ دیکھ سکے تو مَیں نے سوچا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اپنے گورنر سے مخاطب ہیں یا پاکستان میں آنے والے مستقبل کے حکمرانوں سے۔ دین اسلام میں عدل کی اہمیت اور درجے جس جس انداز میں پیش کئے گئے ہیں، اس کے بعد تو کہیں بھی کسی قسم کا گمان نہیں رہنا چاہئے کہ عدل کیا ہوگا، کس طرح ہوگا، کیوں ہوگا؟ کیا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ہدایت کے بعد کسی اور بات کی گنجا ئش رہ جاتی ہے۔
9مارچ 2007ءکو جب جسٹس افتخار محمد چودھری کو ایوان صدر طلب کیا گیا اور ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا۔ جسٹس چودھری کے انکار نے اس ملک کی سیاست میں وہ طلاطم پیدا کر دیا جو سیاست دان نہیں کر سکے تھے، جو فوجی آمر کے ان حربوں کا شکار تھے جس کے تحت جنرل پرویز مشرف اپنے آپ کو حکمران رکھنا چاہتا تھا۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کو غیر فعال کر دیا گیا تھا اور جنرل پرویز مشرف کو یہ گوارہ نہیں تھا سو انہوں نے ملک میں3 نومبر 2007ءکو ہنگامی حالات کا اعلان کر کے انہیں پھر معطل کر دیا ، لیکن عوام اور وکلاءکے دباﺅ پر انہیں 16 مارچ 2009 ءکو بحال کیا گیا ۔ ان کے اس انکار نے انہیں پاکستان کی عدلیہ اور سیاست میں جو مقام دیا ،وہ اس ملک کی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔ ان کی بحا لی مزاحمت اور عام لوگوں اور وکلاءکی جدو جہد کے نتیجے میں جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی ان کے لئے سب سے بڑا خرا ج تحسین تھا جس کا انہیں خود بھی احساس ہے، اسی لئے تو وہ پاکستان عدلیہ کی تاریخ میں عظمت کا ایک ایسا قد آور نشان بن گئے ہیں ،جس کے سامنے بڑے بڑے سیاست دان بونے نظر آتے ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ وہ ایک عام آدمی کے جج کی حیثیت سے اپنے لئے جو مقام بنا چکے ہیں ، ان کے جانشینوں کو ان سے آگے جانا پڑے گا۔ معلوم نہیں کہ وہ عام آدمی کی عدالت کر سکیں گے یا نہیں، حالانکہ ملک میں آج بھی ناخواندہ لوگ ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر اکثر کہتے سنے جاتے ہیں کہ میری عدالت کرو۔ عام آدمی کے اس جج کو 12 د سمبر کو ان کی سالگرہ پر انہیں تحائف بھیجے جانے چا ہئیں، تاکہ انہیں خراج تحسین پیش کیا جا سکے۔  ٭

مزید :

کالم -