نسلِ نو سے علامہ اقبالؒ کا خطاب

نسلِ نو سے علامہ اقبالؒ کا خطاب
نسلِ نو سے علامہ اقبالؒ کا خطاب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


متذکرہ عنوان پر پہلی قسط روزنامہ پاکستان لاہور میں 22 نومبر 2013ءکو شائع ہو چکی ہے، جسے قارئین کرام نے بہت پسند فرمایا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ عوام میں ابھی ملکی احوال کی اصلاح کے لئے جوش و جذبہ سرد نہیں ہوا۔ جن احباب نے راقم کی اس کاوش کو پسند فرمایا اور مبارک باد کہی، ان کا شکر گزار ہوں .... لیجئے دوسری قسط حاضر ہے:
٭تو عالموں سے سینکڑوں کتابیں پڑھتا ہے ،مگر جو سبق نگاہ سے ملتا ہے وہ علم کتابی سے بہتر ہے۔
٭جو شراب نظر سے ٹپکتی ہے، اس سے ہر شخص مختلف انداز سے مست ہوتا ہے۔
٭بادِ سحر کا جھونکا چراغ کو بجھا دیتا ہے ،مگر گل لالہ اس سے جامِ شراب بن جاتا ہے۔
٭تھوڑا کھا، تھوڑا سو، تھوڑی بات کر اور پرکار کی مانند اپنے گرد گردش کرتا رہ۔
٭مُلا کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا منکر کافر ہے، اور میرے نزدیک اپنی عظمتوں کا منکر کافر ہے۔
٭وہ حق تعالیٰ سے انکار کر کے عجول (جلد باز) ہے اور یہ عجول بھی ظلوم بھی اور جہول بھی۔
٭اخلاص کے طریقے کو مضبوطی سے پکڑ اور سلطان و میر کے خوف سے آزاد ہو جا (صرف اللہ تعالیٰ کا ہو جا)
٭غصے میں ہو یا خوشنودی میں عدل کو ہاتھ سے نہ جانے دے، اور افلاس ہو یا امارت میانہ روی نہ چھوڑ۔
٭اگر احکامِ الٰہی مشکل ہوں تو ان کی تاویل نہ ڈھونڈ۔ صرف اپنے قلب سے روشنی حاصل کر۔
٭روح کی حفاظت بے حساب ذکر و فکر سے ہے۔ اور بدن کی حفاظت جوانی میں ضبطِ نفس سے ہے۔
٭دُنیا و آخرت کے اعلیٰ مراتب جان و تن کی حفاظت کے بغیر ہاتھ نہیں آتے۔
٭سفر کا مقصود لذتِ سیر ہے اگر تو نے سفر کے دوران بھی آشیاں پر نظر رکھی تو سفر نہ کر۔
٭چاند گردش کرتا ہے تاکہ بدربن جائے لیکن سیر آدم کی کوئی منزل نہیں (اس کے درجات بلند سے بلند تر ہوتے جاتے ہیں)
٭زندگی لذتِ پرواز کے سوا اور کچھ نہیں آشیانہ اس کی فطرت کو راس نہیں آتا۔
٭زاغ و کرگس کا رزق قبر کی مٹی میں ہے، لیکن باز اپنا رزق ماہ و آفتاب کی فضا میں پاتا ہے۔
٭دین کا راز سچ بولنے اور حلال کھانے اور خلوت و جلوت میں حق تعالیٰ کے جمال کا نظارہ کرنے میں ہے۔
٭دین کی راہ میں الماس کی طرح سخت زندگی بسر کر۔ اللہ تعالیٰ سے دل لگا اور ہر قسم کے وسوسہ سے آزاد ہو۔

٭میں تیرے سامنے اسرار دین کا ایک سر بیان کرتا ہوں اس کا تعلق سلطان مظفر کی داستان سے ہے۔
٭وہ اخلاص و عمل میں فرد فرید تھا، تھا وہ پادشاہ لیکن اسے بایزیدؒ بسطامی کا سا مقام حاصل تھا۔

٭اس کے پاس ایک گھوڑا تھا جسے وہ اپنے بیٹوں کی طرح عزیز رکھتا تھا، وہ گھوڑا اپنے ملک کی طرح سخت کوش تھا۔
٭خالص عربی النسل سبز رنگ، باوفا، بے عیب اور نسل میں پاک۔
٭اے نکتہ رس مردِ مومن کو قرآن پاک شمشیر اور گھوڑے کے علاوہ اور کوئی چیز محبوب نہیں۔
٭میں اس اصیل و نجیب کا کیا وصف بیان کروں وہ پہاڑوں اور دریاﺅں پر سے ہوا کی طرح گزر جاتا تھا۔
٭وہ میدانِ جنگ دیکھتے ہی چست و چوبند ہو جاتا اور کوہ و کمر کو تیز ہوا کی طرح طے کر لیتا۔
٭اس کی تگ و دو میں قیامت کے فتنے تھے، اس کے سم کی ضرب سے پتھر پاش پاش ہو جاتے تھے۔
٭ایک دن وہ گھوڑا جو انسان کی طرح ارجمند تھا دردِ شکم سے کمزور اور بے حال ہو گیا۔
٭جانوروں کے معالج نے شراب سے اس کا علاج کیا اور بادشاہ کے گھوڑے کو درد سے رہائی دلائی۔
٭مگر اس حق بیں بادشاہ نے پھر اس گھوڑے پر سواری نہ کی تقویٰ کا راستہ ہمارے راستے سے جدا ہے۔
٭اللہ تعالیٰ تجھے ایسا قلب و جگر عطا فرمائے دیکھ مسلمان کی فرمانبرداری کا مقام کیا ہے۔
٭دین کیا ہے اللہ تعالیٰ کی طلب میں اپنے آپ کو سوختہ کر دینا اس کی ابتدا ادب اور انتہا عشق۔
٭پھول کی آبرو رنگ اور خوشبو سے ہے بے ادب رنگ و بو سے خالی ہے، اس لئے بے آبرو ہے۔
٭جب میں کسی نوجوان کو بے ادب دیکھتا ہوں تو میرا دن رات کی طرح تاریک ہو جاتا ہے۔
٭میرے سینے کا اضطراب بڑھ جاتا ہے اور مجھے حضور اکرمﷺ کا دور مبارک یاد آتا ہے۔
(حضور اکرمﷺ کی مجلس مبارک میں ادب کو کس طرح ملحوظ رکھا جاتا تھا)
٭میں اپنے دور سے پشیمان ہو جاتا ہوں اور اپنے آپ کو قرونِ رفتہ کی یاد میں چھپا لیتا ہوں۔
٭عورت کا ستر اس کا خاوند ہے یا قبر، مرد کا ستر بری صحبت سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔
٭زبان پر بری بات لانا خطا ہے، کافر ہو یا مومن سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔
٭آدمیت احترامِ آدمی سے عبارت ہے تو آدمی کا مقام پہچان۔

٭ایک دوسرے کے ساتھ تعلق قائم کرنا اور اس تعلق کو ضبط کے تحت رکھنا ہی آدمیت ہے۔ یہی طریق دوستی ہے اس میں قدم بڑھا۔
٭بندہ عشق اللہ تعالیٰ کا راستہ اختیار کرتے ہوئے کافر و مومن دونوں پر شفیق ہے۔
٭کُفر و دیں و دل کی گہرائی میں رکھ ایسے دل پر افسوس ہے جو دوسرے دل سے گریز کرے۔
٭اگرچہ دل آب و گل (بدن) کے قید خانے میں ہے مگر یہ سارا آفاق دل ہی کا آفاق ہے۔
٭خواہ تو کتنا بڑا جاگیردار ہو پھر بھی فقر کو ہرگز ہاتھ سے نہ چھوڑ۔
٭فقر کا سوز تیری جان میں خوابیدہ ہے، یہ پرانی شراب تیرے بزرگوں کی عطا ہے۔
٭دنیا میں درد دل کے علاوہ کسی اور سامان کی خواہش نہ رکھ ،جو بھی نعمت چاہتا ہے اللہ تعالیٰ سے مانگ کسی بادشاہ سے نہ مانگ۔
٭بہت سے حق اندیش اور بینا لوگ کثرتِ نعمت کے باعث اندھے ہو جاتے ہیں۔
٭کثرتِ نعمت دل سے گداز ختم کر دیتی ہے، اس سے دل میں غرور پیدا ہو جاتا ہے ،عاجزی جاتی رہتی ہے۔
٭مَیں برسوں دنیا میں پھرا ہوں مَیں نے دولتمندوں کی آنکھوں میں نمی بہت کم دیکھی ہے۔
٭مَیں اس پر قربان جاﺅں جو درویشانہ زندگی بسر کرتا ہے، افسوس اس پر جو اللہ تعالیٰ سے غافل رہتا ہے۔
٭(اس دور کے) مسلمانوں میں اس ذوق و شوق اس یقین اور اس رنگ و بو کی تلاش نہ کر۔
٭عالمِ قرآن پاک کے علم سے لاپروا ہیں، مودراز صوفی خونخوار بھیڑیئے ہیں۔
٭اگرچہ ان کی خانقاہوں میں ہاﺅہو کا شور ہے، مگر ان میں کوئی ایسا جوانمرد نہیں، جس کے کدو میں شراب (وحدت) ہو۔
٭افرنگ زدہ مسلمان بھی سراب میں سے چشمہ کوثر ڈھونڈتے ہیں۔
٭یہ سب دین کے راز سے بے خبر ہیں یہ اہل دین نہیں بلکہ اہل کین (باہمی عداوت رکھنے والے) ہیں۔
٭خواص میں کوئی خیر و خوبی نظر نہیں آتی ،البتہ میں نے عوام میں صدقِ و صفا دیکھا ہے۔
٭اہل کین اور اہل دین میں امتیاز کر مرد حق کی تلاش کراور اسی کی صحبت اختیار کر۔
٭کر گسوں (گد) کا رسم و آئین اور ہے اور شاہیں کی پرواز کی شان اور ہے۔
٭مرد حق آسمان سے بجلی کی طرح گرتا ہے اور مغرب و مشرق کے شہر و صحرا کو ایندھن کی طرح جلا دیتا ہے۔
٭ہم ابھی تک کائنات کے اندھیروں میں پڑے ہیں اور وہ انتظام کائنات میں شامل ہے۔
٭وہی کلیمؑ ہے وہی مسیحؑ ہے وہی خلیلؑ ہے وہی محمد وہی کتاب ہے وہی جبرایلؑ ہے۔
٭وہ اہل دل کی کائنات کا آفتاب ہے اہل دل کی زندگی اسی کی شعاع سے ہے۔
(انبیاؑ مردان حق کی بہترین مثال ہیں)
٭مرد حق پہلے تجھے اپنی آگ میں جلاتا ہے پھر تجھے سلطانی سکھاتا ہے۔
٭ہم سب اسی کے سوز سے صاحب دل بنتے ہیں۔ ورنہ آب و گل کا ہم نقش باطل ہیں۔
٭جس زمانے میں تو پیدا ہوا ہے میں اس سے ڈرتا ہوں یہ زمانہ بدن میں غرق اور روح سے نا آشنا ہے۔
٭جب بدن قحطِ جان کے باعث بے قیمت ہو جائے تو مرد حق اپنے اندر پنہاں ہو جاتا ہے۔
٭جستجو اس مرد حق کو پا نہیں سکتی ،اگرچہ وہ سامنے موجود ہوتا ہے۔
٭مگر تو ذوق جستجو قائم رکھ، خواہ تجھے مرد حق کی تلاش میں کتنی مشکلات پیش آئیں۔
٭اگر تجھے کسی با خبر مرد کی صحبت میسر نہ آئے تو جو کچھ مَیں نے اپنے آباﺅ اجداد سے پایا ہے، اسے لے لے۔
٭پیر رومیؒ کو اپنا رفیق راہ بناتا کہ اللہ تعالیٰ تجھے سوز و گداز عطا فرمائے۔
٭چونکہ رومیؒ مغز اور چھلکے میں امتیاز رکھتا ہے، وہ دوست کی گلی میں مضبوطی سے قدم جماتا ہے۔
٭لوگوں نے اس کی مثنوی کی شرح کی ہے، مگر اسے پہچانا نہیں، اس کے معانی غزال کی طرح ہماری گرفت سے باہر رہے ہیں۔
٭لوگوں نے اس کے اشعار پر (وجد میں آکر) رقصِ بدن تو سیکھا ہے ،لیکن روح کے رقص سے اپنی آنکھیں بند رکھی ہیں۔
٭تن کا رقص صرف خاک اڑاتا ہے، لیکن جان کا رقص گردشِ افلاک کو درہم برہم (انقلاب برپا) کر دیتا ہے۔
٭رقص جان سے علم و حکمت ہی نہیں، بلکہ آسمان و زمین بھی ہاتھ آ جاتے ہیں۔
٭اسی سے فرد جذبِ کلیم حاصل کرتا ہے اور ملت ملکِ عظیم کی وارث بنتی ہے۔
٭رقصِ جان سیکھنا آسان نہیں، یہ غیر اللہ کو جلا دینے سے حاصل ہوتا ہے۔
٭اے بیٹے! جب تک تو غیر اللہ سے لالچ رکھنے اور کچھ نہ ملنے کے غم سے آزاد نہ ہو جائے تیری روح رقص میں نہیں آ سکتی۔
٭غم و دلگیری ایمان کی کمزوری ہے۔ اے نوجوان غم نصف پیری ہے۔

٭کیا تو سمجھتا ہے؟ کہ حرص ہمیشہ کی محتاجی ہے میں اس مرد کا غلام ہوں جو اپنے اوپر پورا ضبط رکھتا ہے۔
٭اے بیٹے تو جو میری جان نا شکیب کی تسکین ہے اگر تجھے رقص جان نصیب ہو جائے ۔
٭تو (یہی) سر دین مصطفیٰ ہے جو میں تجھے بتا رہا ہوں پھر میں قبر میں بھی تیرے لئے دعا کرتا رہوں گا۔(ختم شد)  ٭

مزید :

کالم -