جہد مسلسل کی کہانی ‘جنوبی افریقہ کے پہلے جمہوری صدر نیلسن منڈیلا انتقال کر گئے ، عالمی رہنماﺅں کا اظہارافسوس

لندن،جوہانسبرگ (مرزا نعیم الرحمان)آزادی کی جدوجہد کا قیدی ‘ آزاد دنیا کی پہچان جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا ہوگٹن میں 95سال کی عمر میں وفات پا گئے ان کے انتقال کا اعلان آدھی رات کے وقت جنوبی افریقی کے صدر جیکب زوما نے کیا صدر زوما کا کہنا تھا کہ افریقی قوم اپنے عظیم محسن سے محروم ہو گئی نیلسن منڈیلا پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھے، انہیں تین ماہ قبل اسپتال سے گھر منتقل کیا گیا تھا انہیں وینٹی لیٹر پر چھ ماہ تک زندہ رکھا گیا نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر تھے، وہ 18جولائی 1918میں ساﺅتھ افریقہ کے ایک شہر تنسکی کے گاﺅں اوماتا میں پیدا ہوئے اور05 دسمبر 2013کو 95سال کی عمر میں ا نتقال کر گئے وہ ساﺅتھ افریقہ کے پہلے کالے صدر تھے انکی اصل سیاسی جدوجہد 1943میں شروع ہوئی جب انہوں نے افریقن نیشنل کانگرس میں شمولیت اختیار کی 1944میں انہوں نے ایولین ماسی سے شادی کی اور انہیں 1957میں طلاق دیدی 1958میں میڈلیکو زیلا نامی ایک خاتون سے دوبارہ شادی کی 1960میں انہوں نے نسلی امتیاز کیخلاف ایک جلوس کی قیادت کی جس پر پولیس نے فائرنگ کر کے 69افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا 1962میں انہیں احتجاجی تحریک اور بغاوت کے الزام میں 17ماہ کی قید کا حکم سنایا گیا 12جون 1964میں انہیں دوبارہ انہیں بغاوت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور انہیں عمر قید کی سزا کا حکم سنادیا گیا 1968میں انکی والدہ وفات پا گئیں اور انکا بیٹا کار کے حادثے میں ہلاک ہو گیا مگر انہیں انکی آخری رسومات میں شرکت کی اجازت نہ دی گئی 1980میں ان کے ایک دوست ایکسڈ اولیرنے اپنے دوست کی رہائی کیلئے بین الاقوامی سطح پر مہم شروع کی 1990میں گیارہ فروری کو انہیں 27سال بعد وکٹر وارسٹر جیل پرل سے رہائی دی گئی 1991میں ساﺅتھ افریقہ کے سفید فام صدر کلیرک نے انکی افریقن نیشنل قومی کانگرس سے پابندی اٹھا لی 1991میں اولمپک کمیٹی نے 21سال کی ساﺅتھ افریقہ پر پابندی کے بعد انکے کھلاڑیوں کو اولمپکس گیم میں شرکت کی اجازت دی اور ساﺅتھ افریقہ کے ایتھلٹ نے پہلی مرتبہ اولمپک گیمز میں شرکت کی 1992میں انہوں نے اپنی بیوی وینی منڈیلا کو طلاق دیدی اس طرح نیلسن منڈیلا نے اپنی زندگی میں تین شادیاں کیں 1993میں نیلسن منڈیلا اور ساﺅتھ افریقہ کے سفید فام صدر مسٹر ڈی کلیرک کو مشترکہ طور پر امن کا نوبل انعام دیا گیا 1994میں 26اپریل کو ساﺅتھ افریقہ میں آزادانہ انتخابات میں پہلی مرتبہ ساﺅتھ افریقہ کے سیاہ فام کو ووٹ کا حق دیا گیا اور انکی جماعت اے این سی نے قومی اسمبلی کی 4سو سیٹوں میں سے 252سیٹیں حاصل کر لیں اور نیلسن منڈیلا ساﺅتھ افریقہ کے پہلے کالے صدر منتخب ہو گئے 1995میں ساﺅتھ افریقہ نے رگبی کا عالمی کپ جیت لیا 1998میں نیلسن منڈیلا نے موزبیق کے مرحوم صدر کی بیوہ گریما مائیکل سے 80سال کی عمر میں شادی کر لی 2001میں انہیں کینسر کی تشخیص ہوئی 2004میں نیلسن منڈیلا نے 85سال کی عمر میں سیاسی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کر لی 2005میں انکا بیٹا موگاتو منڈیلا ایڈز سے ہلاک ہو گیا 2010میں وہ ساﺅتھ افریقہ میں ہونیوالے ورلڈ کپ میں دوبارہ منظر عام پر آئے 2012فروی اور دسمبر میں وہ دو مرتبہ ہسپتال میں داخل ہوئے امریکی صدر بارک اوباما نے ساﺅتھ افریقہ کے اپنے حالیہ دورے کے موقع پر وکٹر ورسٹر جیل کا خصوصی طور پر دورہ کیا اور جس سیل میں وہ قید رہے وہاں پر کافی وقت گزارا انہوں نے نیلسن منڈیلا کی وفات پر کہا ہے کہ انکی زندگی سے انہوں نے سبق سیکھا ہے برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے انہیں روشنی کا مینارہ قرار دیا اور کہا کہ دنیا کی جہد مسلسل کی انمٹ داستان رقم کرنیوالا دنیا سے چلا گیا جنرل سیکرٹری اقوام متحدہ بان کی مون نے نیلسن منڈیلا کو انصاف کا دیوتا قرار دیا انکی آخری رسومات سرکاری طور پر اور پورے اعزازات کے ساتھ ادا کی جائیگی امریکی صدر براک اوباما سمیت دنیا بھر کے رہنما آخری رسومات میں شریک ہونگے نیلسن منڈیلا کی وفات کی خبر کو ‘ امریکہ ‘ مغربی ممالک ‘ اور برطانیہ سمیت دنیا کے ذرائع ابلاغ نے بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا جبکہ ساﺅتھ افریقہ میں انکے انتقال کی خبر سنتے ہی لوگ زارو قطار روتے ہوئے سڑکوں پر آ گئے لاکھوں افراد انکی رہائشگاہ کے باہر پہنچ گئے جبکہ دنیا بھر میں ساﺅتھ افریقہ کے سفارتخانوں میں تعزیتی کتاب رکھ دی گئی ہے اور سفارتخانوں کے باہر عوام کی بھاری تعداد نے انکی فوٹو کے پاس پھولوں کے گلدستوں کے ڈھیر لگا دیے انکی وفات پر برطانیہ میں انکی زندگی پر بنائی جانے والی فلم ریلیز کی جا رہی ہے نیویارک میں سلامتی کونسل میں ان کے انتقال کی خبر پر تمام ارکان کھڑے ہو گئے اور دو منٹ کی خاموشی اختیار کی ۔نیلسن منڈیلا کے انتقال پر عالمی رہنماو¿ں نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔امریکی صدر بارک اوبامہ نے اپنے بیان میں کہا کہ منڈیلا کو دنیا میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے منڈیلا کے انتقال پر وزیراعظم ہاو¿س پر قومی پرچم سرنگوں رکھنے اعلان کیا ہے، ڈیوڈ کیمرون نے اپنے بیان میں کہا کہ نیلسن منڈیلا ایک عظیم شمع تھی جوبجھ گئی ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی نیلسن منڈیلا کے انتقال پر افسوس کااظہار کیا، اپنے بیان میں بان کی مون کا کہنا تھا کہ نیلسن منڈیلا انصاف کے دیوتا تھے۔