پاکستان کی سلامتی کو درپیش چیلنجوں کی درست نشاندہی
پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتہا پسندی سے نمٹنے کے لئے موجودہ میکانزم ناکافی ہے، ہمیں اپنے نظریات اور کلچر کے تحفظ کے لئے کام کرنا ہو گا،غیر ریاستی عناصر ریاستوں کے لئے براہ راست خطرہ ہیں، خطے میں پائیدار امن کے لئے مسئلہ کشمیر اور فلسطین کا حل ہونا بہت ضروری ہے۔ کراچی میں آئیڈیاز2014ء دفاعی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا قومی سلامتی کو یقینی بنانا ہر ادارے کی ذمہ داری ہے۔ مسئلہ کشمیر پورے خطے کی سلامتی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی ملکی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں، انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی جاری رہے گی کسی کو شک نہیں رہنا چاہئے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ پاکستان کو پیچیدہ دفاعی صورت حال کا سامنا ہے، دشمن ہمارے درمیان ہے، خوراک اور پانی کی کمی نئے سیکیورٹی چیلنج ہیں۔
جنرل راحیل شریف نے ملکی سلامتی کو درپیش جن چیلنجوں کا ذکر کیا ہے، اُن کا مقابلہ کرنا پوری قوم کی ذمہ داری ہے اور ملکی اداروں کو مل کر اِن چیلنجوں سے نپٹنا ضروری ہے۔ کچھ عشرے پہلے ملکی سلامتی کو درپیش مسائل کا منبع مُلک سے باہر تھا، دشمنوں کا چہرہ بھی سامنے تھا اور ان کے عزائم بھی بڑی حد تک آشکار تھے۔ یہ بھی معلوم تھا کہ دشمن سرحدوں پر کہاں کہاں موجود ہے، اس کی نقل و حرکت پر بھی نظر رکھی جاتی تھی اور جارحیت کی صورت میں بھرپور تیاری کی جاتی تھی، لیکن دہشت گردی کی جس جنگ سے اب ہمیں نپٹنا پڑ رہا ہے اُس میں نہ تو دشمن کا چہرہ واضح ہے اور نہ ہی آسانی سے اس سمت کا تعین کیا جا سکتا ہے، جس جانب سے وہ حملہ آور ہو گا، حملے کے انداز اور طور طریقے بھی بدلے گئے ہیں، خود کش حملوں کا سلسلہ دہشت گردوں کی وارداتوں میں ایسا اضافہ ہے کہ اگر سیکیورٹی ادارے پوری طرح الرٹ بھی ہوں تو چیکنگ کا کام کرتے کرتے خود کش حملہ آور اپنے آپ کو دھماکے سے اُڑا لیتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی خود کش بمبار اپنے ٹارگٹ تک پہنچنے میں پوری طرح ناکام ہو جائے اور سیکیورٹی اداروں کے ارکان اسے گردن سے دبوچنے میں بھی کامیاب ہو جائیں، تو جس جگہ وہ قابو آتا ہے وہیں اچانک خود کو اڑا لیتا ہے اور جانی اور مالی نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔ دہشت گردی کے اس عفریت کی بہت سی جہتیں اور پہلو ہیں۔ بعض تو بالکل ہی تازہ ترین ہیں، اس لئے یہ جنگ جوں جوں آگے بڑھتی جاتی ہے دہشت گرد سیکیورٹی اداروں کے ارکان کو دھوکہ دینے کے لئے بھی نئے نئے طریقے دریافت کر لیتے ہیں، اس لئے اس جنگ سے پوری طرح نپٹنے کے لئے ہمارے اداروں کو بھی نیا میکانزم بنانے کی ضرورت ہے۔ موجودہ میکانزم کے ناکافی ہونے کی آرمی چیف نے بالکل درست نشاندہی کر دی ہے۔ نیا میکانزم بنانے کے لئے سیکیورٹی اداروں اور سویلین انتظامیہ کو مل بیٹھ کر نیا لائحہ عمل طے کرنا ہو گا، ضرورت اس بات کی ہے کہ جو علاقے دہشت گردوں سے کلیئر کرا لئے جائیں وہاں سویلین حکام کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں تاکہ اگر ان علاقوں سے سیکیورٹی حکام واپس جائیں تو دہشت گردوں کو ان علاقوں میں واپس آنے کا موقعہ نہ ملے۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے خطے کو درپیش چیلنجوں کے ضمن میں مسئلہ کشمیر و فلسطین کا ذکر بھی کیا ہے۔ فلسطین کے معاملے پر تو دنیا پون صدی بعد جاگنا شروع ہو گئی اور بہت سے مغربی ملکوں میں اس مسئلے کا حقیقی ادراک کیا جا رہا ہے اور مسئلے کا حل فلسطینی مملکت کے قیام کی صورت میں ڈھونڈا جا رہا ہے۔ دنیا کے بہت سے ملکوں کو ادراک ہو گیا ہے کہ فلسطینی مملکت کے بغیر مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم ہو گا اور نہ ہی فلسطینیوں کو اُن کے حقوق دیئے بغیر انصاف کے تقاضے پورے کئے جا سکیں گے۔ اسرائیل ایک تو غاصب قوت ہے اور ایک منصوبے کے تحت اس علاقے میں اس کے عالمی سرپرستوں نے اسرائیل کی ناجائز ریاست قائم کی، لیکن مزید ظلم یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو اُن کے حقوق دینے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا۔ بہت عرصہ پہلے یہ محسوس کر لیا گیا تھا کہ فلسطینی مملکت کے بغیر امن کا قیام مشکل ہے۔ بعض امریکی رہنماؤں کو بھی اِس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے، لیکن اسرائیل کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بات آگے نہیں بڑھ سکی، لیکن اب یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ دو ریاستی فارمولا پذیرائی حاصل کرے گا اور پھر عملی طور پر بھی ممکن ہو گا۔
کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی وجہ نزاع ہے۔ یہ مسئلہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی پیدا ہو گیا تھا، بھارتی حکومت اگر آزاد بھارت کے بانی رہنماؤں کے وعدوں کو یاد رکھتی تو اب تک یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا، لیکن بھارت اس کے حل سے مسلسل پہلو تہی کر رہا ہے۔ بھارت کی نئی حکومت نریندر مودی کی قیادت میں اپنی دانست میں ریاست کے حصے بخرے کر کے اور یہاں ہندو رہنماؤں کو برسر اقتدار لا کر اس مسئلے کو حل کرنے کا ایڈونچر کرنا چاہتی ہے، لیکن اسے اس معاملے میں مُنہ کی کھانی پڑے گی۔کشمیر مسلم اکثریتی ریاست ہے اور یہاں آزادی کے بعد سے ہمیشہ مسلمانوں کی سیاسی جماعتیں ہی برسر اقتدار رہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے عمومی طور پر کٹھ پتلی جماعتوں کا کردار ادا کیا، لیکن نریندر مودی جو کھیل کھیل رہے ہیں، وہ بہت ہی خطرناک ہے اور اس سے خطہ نئی کشیدگی کا شکار ہو جائے گا۔ بھارت کو ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی خواہشات اور رائے شماری کے ذریعے حل کرنا چاہئے۔ بصورت دیگر یہ خطہ شعلہ جوالا بنا رہے گا اور کسی بھی وقت علاقے کے خرمنِ امن کو جلا کر خاکستر کر دے گا۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے درست طور پر یہ بھی کہا ہے کہ این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی ملکی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں، اب تک پاکستان میں این جی اوز کو ضرورت سے زیادہ فری ہینڈ دیا گیا، جنہوں نے اپنے مقاصد کو پیش نظر رکھ کر ایسے ایسے کام کئے، جن سے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچا۔ یہی این جی اوز پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کو ختم کرانے کے در پے ہیں اور اس مقصد کے لئے پاکستان میں کوئی نہ کوئی ایشو کھڑا کر دیا جاتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں این جی اوز کی سرگرمیوں کو محدود کیا جائے اور اچھی طرح چھان بین کر کے ہی انہیں کام کرنے کی اجازت دی جائے، اِسی طرح ملٹی نیشنل کمپنیوں کے تجارتی مقاصد کے ساتھ ساتھ سیاسی مقاصد بھی ہوتے ہیں، بعض حلقے تو انہیں ایسٹ انڈیا کمپنی کا جدید ایڈیشن بھی کہتے ہیں۔ یہ کمپنی تاجروں کے روپ میں برصغیر آئی تھی اور مغل حکمرانوں سے مراعات لے کر یہاں کاروبار کے پردے میں استعماری مقاصد کے لئے کام شروع کر دیا اور بالآخر ہندوستان کو غلام بنا لیا۔ دو سو سال بعد برصغیر کے لوگوں نے ان بدیشی حکمرانوں سے1947ء میں نجات حاصل کی اور پاکستان کا قیا م عمل میں آیا، اس تجربے کی روشنی میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے خفیہ مقاصد پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری آزادی کے خلاف کوئی سازش پروان نہ چڑھ سکے۔