16ماہ سے زیر التوا مسئلہ حل، چیف الیکشن کمشنر کا تقرر ہو گیا
تجزیہ: چودھری خادم حسین
ارادہ پختہ ہو تو سبھی کام ہو جاتے ہیں، سولہ ماہ سے لٹکتا ہوا مسئلہ سپریم کورٹ کی سخت ہدایات کے بعد صرف تین دن کے اندر حل ہو گیا اور وفاقی شرعی عدالت کے چیئرمین جسٹس محمد رضا خان کی تقرری بطور چیف الیکشن کمشنر ہوگئی اور یہ 5دسمبر سے پہلے ہوئی جو عدالت عظمیٰ کی ڈیڈ لائن تھی، یوں یہ بحران تو حل ہوا اب حکومت کو تحریک انصاف سے مذاکرات شروع کرنا ہیں، اس میں بھی اب تاخیر نہیں ہونا چاہیے کہ دوسری طرف سے بھی رضا مندی کا اظہار کر دیا گیا ہے، یوں بھی معاملات تو پہلے سے طے پا چکے ہوئے ہیں، اب تو ان کی جزئیات طے ہونا ہیں، حکومت بھی راضی ہے اور عمران خان نے بھی عندیہ دے دیا ہے اور بظاہر استعفیٰ والا مطالبہ بھی ترک کر دیا ہے، اس لئے بہتر عمل معاملات کو جلد از جلد طے کرنا ہے۔
اس عرصہ میں ایک خبر یہ بھی ہے کہ شیخ رشید نے قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق سے ملاقات کرکے تحریک انصاف والوں کے استعفوں کے حوالے سے بات کی ہے۔ تحریک انصاف کے چار اراکین قومی اسمبلی تو کھلم کھلا قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کر چکے، باقی میں سے بھی پانچ اراکین کی رائے یہی ہے وہ منتظر ہیں کہ اجتماعی طور پر واپسی ہو جائے تو بہتر ،مجبور ہو گئے تو وہ بھی یہی راستہ اختیار کریں گے، اس لئے مذاکرات شروع ہو کر ان کا کامیاب ہونا خود تحریک انصاف کے فائدہ میں ہے اسے مزید شرمندگی سے دوچار نہیں ہونا پڑے گا۔ یوں بھی عمران خان نے عوامی موڈ اور مسلم لیگ (ن) کی جوابی حکمت عملی دیکھ لی کہ پورے ملک سے شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام کے خلاف آواز بلند ہوئی۔ عمران خان کو یہ کہنا پڑا کہ پیر کو فیصل آباد میں شٹر ڈاؤن کے لئے نہیں کہا جائے گا کہ صرف مظاہرہ ہوگا، وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے بھی ستم ظریفی کی اور اپنے دوست عمران خان کو خیبرپختون خواہ کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی خفیہ ملاقاتوں کے ثبوت دینے کی پیشکش کر دی ہے۔ پرویز خٹک نے نیم دلانہ تردید کی کہ 14اگست کے بعد نہیں ملے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس حد تک تسلیم کر گئے کہ پہلے ملتے رہے، بہرحال قوم اب یہ سلسلہ ختم ہوتے دیکھنا چاہتی ہے اور یہی تحریک انصاف کے لئے بھی بہترہے۔
قارئین! یہ گزارش غور سے پڑھ لیجئے گا کہ اس میں بہت سی افواہوں اور کئی تجزیہ کاروں کے ارشادات کی نفی ہے۔ وزیراعظم محمد نوازشریف نے لندن میں افغان کانفرنس سے خطاب کیا اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آئیڈیاز 2014ء نمائش دیکھی اور وہاں تحریری تقریر کی۔ ہر دو کی تقریروں کے اکثر اقتباسات میں یکسانیت ہے خصوصاً دہشت گردی کے حوالے سے تو الفاظ بھی ملتے جلتے ہیں، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت افغانستان اور دہشت گردی کے حوالے سے ایک جیسی پالیسی پر متفق ہے اور اس میں معنی تلاش کرنے والوں کو مایوسی ہونا چاہیے، یہ ایسے امور ہیں جو براہ راست قومی سلامتی سے منسلک ہیں ان کے حوالے سے ابہام یا اختلاف ملکی مفادات کے حق میں نہیں، اس لئے بہتر صورت یہی ہوتی ہے کہ بعض واقعات کے رونما ہونے کے بعد تھوڑا انتظار کر لیا جائے۔
جنرل راحیل شریف کے دورۂ امریکہ کو کئی معنی پہنائے گئے، حقیقت پسندانہ جائزہ نہیں لیا گیا، اب امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور وزیراعظم محمد نوازشریف کی ملاقات میں بھی دہشت گردی جیسے عوامل زیر غور آ چکے، جب وزیراعظم واپس آئیں گے تو آرمی چیف کی ان سے ملاقات یقینی ہے کہ یہ ریاستی آداب اور اصول کے مطابق ہو گی اس میں اچنبھے اور اچانک والی کوئی بات نہیں ہو سکتی، دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیال کرنا ہے کہ ملکی سلامتی کے امور ہیں۔
پاکستان کی تمام تر سیاسی قیادت کو بڑے ممالک اور دنیا کی رنگ دکھاتی سیاست کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے، امریکی کانگرس نے پاکستان کی ’’کولیشن سپورٹ فنڈ‘‘ والی امداد کو نہ صرف کم کرکے ایک ارب ڈالر کر دیا بلکہ اسے مشروط کرکے وزیر دفاع (امریکی) کے پاس 30کروڑ ڈالر پوچھے بغیر دینے کا اختیار بھی واپس لے لیا ہے، شرط عائد کی گئی کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ وزیراعظم اور آرمی چیف نے الگ الگ طور پر واضح کیا کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی بلا امتیاز ہو رہی ہے۔ یوں یہ شرط پہلے ہی پوری کر دی گئی تاہم امداد کم کر دی گئی۔ جو غیر مناسب امریکی رویہ ہے۔ حکومت کو اس پر بھی توجہ دینا ہے، ان تمام معاملات کے لئے ملک کے اندر استحکام کی ضرورت ہے جو سیاسی بحران کے خاتمے سے منسلک ہے، سیاسی رہنماؤں کو دانش مندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، عمران خان کے پاس اب بھی موقع ہے مذاکرات میں شفاف انتخابات، غیر جانبدارانہ احتساب اور دوسرے عوامی مسائل کے حوالے سے حکومت سے موقف منوا لے اگرچہ حکومت تسلیم کرنے کا اعلان اور عندیہ دے چکی ہے۔