وہی تھانہ کلچر۔۔۔!

وہی تھانہ کلچر۔۔۔!
وہی تھانہ کلچر۔۔۔!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’تھانہ کلچر‘‘ کی تبدیلی کی بہت بات کی گئی۔ تھانہ کلچر کیا تبدیل ہو گیا، کیا اس میں کوئی بہتری آئی؟ اس کا جواب ہمیشہ کی طرح نفی میں ہو گا۔ پہلے کی طرح آج بھی تھانہ کلچر وہی ہے، جس کا چرچا کرتے ہوئے سیاسی جماعتیں اسے تبدیل کرنے کی دہائی دیتی تھیں۔ مسلم لیگ(ن) کے بھی انتخابی منشور کا حصہ تھا کہ جب اُن کی حکومت آئی، وہ تھانہ کلچر تبدیل کر دیں گے، لیکن ’’کلچر‘‘ اب تک تبدیل نہیں ہوا۔یہ ’’تھانہ کلچر‘‘ ہے کیا؟ اس پر بہت بحث ہو چکی۔ اب بھی اس پر ’’بحث‘‘ کی بہت زیادہ گنجائش باقی ہے۔ افسوس اسی بات کا ہے کہ زمانہ تبدیل ہو گیا ہم کب کے اکیسویں صدی میں داخل ہو گئے۔ تبدیلیوں نے اپنے بہت سے عمل مکمل کرلئے، لیکن تبدیل نہیں ہوا تو صرف تھانہ کلچر۔


لاہور کی بات کریں تو اس میں کئی ماڈل تھانے بن چکے، یعنی ان ماڈل تھانوں نے فرسودہ اور بوسیدہ عمارتوں کی جگہ لے لی ہے۔ ملازمین کے لئے بہترین کمرے تعمیر کر دیئے گئے ہیں جہاں وہ آرام کرتے ہیں اور تفتیش بھی۔ حوالاتوں کا معیار بھی بہتر بنا دیا گیا۔ اب ان میں کیڑے مکوڑے نہیں ہوتے، نہیں بدلا، تو وہ ماحول نہیں بدلا، جس پرہمیشہ انگلی اٹھائی جاتی ہے۔ تھانوں میں اب بھی وہی لوگ ہیں ،جو پہلے تھے، اب بھی ہیں اور شاید آئندہ بھی رہیں۔ کوئی اُن کا ’’برین واش‘‘ نہیں کر سکا۔ کوئی نہیں سمجھ سکا کہ تھانے میں آنے والوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا ہے؟ وہ کونسا برتاؤ ہے جو انہیں روا رکھنا ہے، جس سے پولیس کا تھانوں کاامیج عوام میں بہتر ہو۔ اُن کی عزت میں اضافہ ہو۔پاکستان میں پولیس کو بے پناہ اختیارات حاصل ہیں۔ تاہم قانون نے پولیس کے لئے کچھ حدود و قیود بھی مقرر کر دی ہیں۔ اُن کے اختیارات کیا ہیں؟ اس کا استعمال اُنہیں کیسے کرنا ہے؟ پولیس اختیارات سے تجاوز کرے تو اس کے لئے محکمانہ سزائیں مقرر ہیں۔ پرچوں کے اندراج سے لے کر استغاثے کا آپشن بھی موجود ہے، لیکن اس کے باوجود اختیارات کا نشہ اکثرپولیس اہلکاروں کو اتنا مدہوش کر دیتا ہے کہ انہیں خبر نہیں رہتی کہ قانون کے رکھوالے کی حیثیت سے وہ اپنی حیثیت اور کردار کو کس طرح مجروح اور مسخ کر رہے ہیں۔


ہر تحصیل اور ضلع کی سطح پر تھانے قائم ہیں، جن کا اصل کردار ہی جُرم کی بیخ کنی ہے۔پولیس کا ایک مربوط نظام دنیا بھر میں موجود ہے، جس کے ذریعے نظم و نسق قائم کیا جاتا ہے۔ مجرموں کی سرکوبی اور جرم کے خاتمے کی اہم اور بھاری ذمہ داری پولیس کو سونپی جاتی ہے، جس کے لئے انہیں وردی اور عہدے تفویض کیے جاتے ہیں۔ پولیس کا یہ عہدہ سپاہی کے رینک سے شروع ہو کر انسپکٹر جنرل کے عہدے تک پہنچتا ہے۔ ڈی ایس پی اور اے ایس پی ایک ہی سطح کے عہدے ہیں۔ ان کے اختیارات بھی ایک ہی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ڈی ایس پی، اے ایس آئی یا سپاہی کے عہدہ سے ترقی کرتا ہوا اس عہدہ تک پہنچتا ہے، جبکہ اے ایس پی پبلک سروس کمیشن سے مقابلے کا امتحان پاس کر کے اس عہدہ پر تعینات ہوتا ہے۔ یہ تعلیم یافتہ افسر ہوتا ہے جبکہ ڈی ایس پی نسبتاً کم تعلیم یافتہ ہوتا ہے۔ اس کے اثرات اُن کی متعلقہ عہدے پر تقرری کے بعد سامنے آتے ہیں۔ ڈی ایس پی کی نسبت اے ایس پی کا رویہ اپنے آفس میں آنے والوں کے ساتھ زیادہ نرم اور مشفقانہ ہوتا ہے، جس سے تھانہ کلچر کے حوالے سے جو تاثر عمومی طور پر لوگوں میں قائم ہے وہ زائل ہوتا نظر آتا ہے۔ تاہم تھانوں میں داخل ہو کر لوگوں کے ساتھ تذلیل کا جو مسلسل عمل جاری ہے اُس نے ہی ’’تھانہ کلچر‘‘ پر بہت سے سوال پیداکر رکھے ہیں۔ تھانوں میں تعینات پولیس افسر اور اہلکار تھانوں میں آنے والوں کے ساتھ جس طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں، الفاظ نہیں کہ اُن کا سلیس زبان میں احاطہ کر سکوں۔


اگرچہ پولیس کے اعلیٰ افسران ضرور موجود ہیں۔ اُن کا رویہ بھی اپنے دفاتر میں آنے والوں کے ساتھ بہتر ہوتا ہے، لیکن عوام کا اصل واسطہ تو تھانے سے پڑتا ہے۔ جہاں اُن سے جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ پیسے کے بغیر ایف آئی آر درج نہیں ہوتی اور رقم دئیے بغیر ملزم گرفتار نہیں ہوتے۔ ملزمان رقم دے دیں تو انہیں تھانے کے اندر ہر طرح کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ رقم نہ دینے کی صورت میں اُن پر ’’تھرڈ ڈگری‘‘ آزمائی جاتی ہے، یعنی بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو ایک طرح سے قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ ثبوت ہو، نہ ہو، پیسہ دو اور کسی بھی نوعیت کی ایف آئی آر درج کرا لو۔ صدمے کی گھڑی تو یہی ہے کہ مظلوم کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ ایف آئی آر درج نہ ہونے کی صورت میں درخواست دہندہ یا مدعی 22A، 22/B کے تحت جب پٹیشن لے کر رجوع کرتا ہے تو عدالتی حکم کے باوجود تھانے میں اُس کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی اور اندراجِ مقدمہ کی درخواست عدالتی حکم کے باوجود دبا دی جاتی ہے، جس پر درخواست دہندہ یا مدعی کو ایک بار پھر عدالتی حکم کی تعمیل نہ ہونے پر توہین عدالت کی درخواست کے ساتھ عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک تھکا دینے والا عمل ہے جو دو تین مہینوں تک محیط ہوتا ہے۔ پولیس ان معاملات میں اکثر اپنی ہی من مانی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس کا امیج یا تاثر عوام میں بہتر نہیں اور یہی وہ رویہ اور تھانوں کا ماحول ہے جو ’’تھانہ کلچر‘‘ کو تبدیل نہیں ہونے دیتا۔


اس کے امیج کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ تھانوں میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی بطور ایس ایچ او تعیناتی ہو۔ ایک بار تجویز پیش کی گئی تھی کہ ہر تھانے میں اے ایس پی کی سطح کا کوئی افسر بحیثیت انچارج تھانہ تعینات کیاجائے۔ لیڈی پولیس انسپکٹر کی بطور محرر تھانہ تعیناتی کی تجویز بھی سامنے آئی تاکہ اندراجِ مقدمہ یا دیگر نوعیت کے فوجداری معاملات کے لئے تھانے میں آنے والوں کو غیر انسانی یا غیر مہذب رویہ اختیار کرنے کی شکایت پیدا نہ ہو، مگر ان تجاویز کو درخور اعتنا نہ سمجھا گیااور معاملات آگے نہ بڑھ سکے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اگر واقعی ’’تھانہ کلچر‘‘ تبدیل کرنا چاہتی ہے اور اس حق میں ہے کہ یہاں کوئی تبدیلی آئے جس سے لوگوں کو سکھ کا سانس ملے تو ایف آئی آر کے اندراج سے لے کر تفتیش تک کے تمام مراحل کو آسان اور شفاف بنانا ہو گا۔ تھانوں میں ایسے افسر اور اہلکار متعین کرنے ہوں گے، جو قانون اور اخلاقیات سے پوری طرح آشنا ہوں۔

مزید :

کالم -