تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا انتخابی نشان ایک ہوتا تو ووٹر تک واضح پیغام جاتا

تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا انتخابی نشان ایک ہوتا تو ووٹر تک واضح پیغام ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
کراچی کے چھ اضلاع کے بلدیاتی انتخابات میں حسب توقع متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو برتری حاصل ہوگئی ہے۔ مخالفین بھی یہ تسلیم کرتے تھے کہ ان انتخابات میں فتح ایم کیو ایم کا مقدر بنے گی۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے امیدوار سیٹ ایڈجسٹمنٹ فارمولے کے تحت ایم کیو ایم کے امیدواروں کا مقابلہ کر رہے تھے لیکن انہیں کامیابی نہیں مل سکی۔ کامیابی کی صورت میں جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کو میئر بنانا چاہتی تھی لیکن وہ ضلع وسطی میں یو سی 18 سے ہار گئے ہیں۔ اسی طرح اسی ضلع کی یو سی 16 میں تحریک انصاف کے امیدوار علی زیدی بھی ہار گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے نجمی عالم کو میئر کا امیدوار ڈیکلیئر کر رکھا تھا وہ بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ اس طرح میئر کے تین متوقع امیدوار تو اپنی اپنی یونین کونسلوں سے ہار گئے ہیں البتہ ایم کیو ایم کے میئر شپ کے امیدوار وسیم اختر اپنی یونین کونسل میں جیت گئے ہیں۔ تاہم یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ ایم کیو ایم وسیم اختر کو ہی اپنا امیدوار بنائے گی کیونکہ ماضی میں بھی ایک بار ایسا ہوچکا ہے کہ ان کا نام ناظم کراچی کیلئے لیا جارہا تھا لیکن ان کی بجائے قرعہ فال مصطفی کمال کے نام نکل آیا۔
تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے اتحاد کو امید تھی کہ وہ اس بار ایم کیو ایم کی کامیابی مشکل بنا دیں گی۔ دونوں جماعتوں نے مشترکہ اور الگ الگ کامیاب ریلیاں بھی نکالی تھیں‘ کامیاب اور بڑے بڑے جلسے بھی کئے تھے جن سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے خطاب کیا تھا اور یہ اعلان بھی کیا تھا کہ انہیں کامیابی حاصل ہوگی‘ لیکن شہر میں کم ٹرن آؤٹ کا فائدہ ایم کیو ایم کو حاصل ہوا‘ ان کے حامی ووٹر کافی تعداد میں گھروں سے نکلے اور ایم کیو ایم کو ووٹ دیئے جبکہ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ مخالف جماعتوں کا ووٹر بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کیلئے نہیں نکلا۔ روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں شائع شدہ تجزیئے میں یہ رائے دی گئی تھی کہ اگر ٹرن آؤٹ زیادہ ہوا تو مخالف جماعتوں کو فائدہ ہوگا جبکہ کم ٹرن آؤٹ کی صورت میں ایم کیو ایم فائدے میں رہے گی‘ عملاً بھی ایسا ہی ہوا۔ الطاف حسین کے خلاف مقدمے کی خبر بھی ایم کیو ایم کے حق میں گئی۔
اس موقع پر ایک اہم سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا اتحاد اس کے فوائد سمیٹنے میں کیوں ناکام رہا؟ دونوں جماعتیں الگ الگ الیکشن لڑتیں تو بھی نتائج کم و بیش ایسے ہی آتے اتحاد کا فائدہ کیوں نہیں ہوا؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اگرچہ اسے نام تو اتحاد کا دیا گیا لیکن یہ معروف معنوں میں باقاعدہ اتحاد نہیں تھا۔ اسے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کہا جاسکتا ہے۔ اتحاد میں انتخابی نشان ایک ہوتا ہے یہاں دو انتخابی نشان تھے‘ کہیں ترازو تھا جو جماعت اسلامی کا انتخابی نشان ہے اور کہیں بلا تھا جو تحریک انصاف کا انتخابی نشان ہے۔ کہیں کہیں یہ دلچسپ صورتحال بھی سامنے آئی کہ دونوں جماعتوں کے امیدوار ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ اس تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ اس طرح کے نیم دروں‘ نیم بیروں قسم کے اتحاد کا پیغام واضح انداز میں ووٹر تک نہیں پہنچ پاتا اور وہ کنفیوژن کا شکار رہتا ہے۔ اگر انتخابی نشان یکساں ہوتا تو اس سے کم از کم یہ تو ہوتا کہ ووٹر تک زیادہ بہتر انداز میں دونوں جماعتوں کا پیغام جاتا‘ لیکن یہاں صورتحال یہ تھی کہ ہر چند اتحاد تھا مگر انتخابی نشان الگ الگ تھے۔ ماضی میں سیاسی اتحادوں کو کامیابی اسی وقت حاصل ہوئی جب انہوں نے ایک نشان کے تحت متحد ہوکر الیکشن لڑا۔ اس کی واضح مثال 2002ء میں ایم ایم اے کا اتحاد ہے جس میں یوں تو چھ جماعتیں تھیں لیکن دو بڑی جماعتوں یعنی جمعیت العلمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی کو زیادہ نشستیں ملیں۔ ایم ایم اے نے صوبہ سرحد میں حکومت بنائی اور پانچ سال تک چلائی۔ اس حکومت کے وزیراعلیٰ اکرم خان درانی تھے جن کا تعلق جے یو آئی (ف) سے تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ایم ایم اے اختلافات کا شکار ہوئی اور دونوں جماعتیں 2005ء کے بلدیاتی انتخابات میں ایک دوسری کے مدمقابل آگئیں اور الگ الگ جماعتوں کی حیثیت سے اس بلدیاتی الیکشن میں کود پڑیں تو دونوں کو وہ کامیابی نہ ملی جو ایم ایم اے کے جھنڈے تلے متحد ہونے کی صورت میں ملتی۔ ذرا پیچھے جائیں تو 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد نے پیپلز پارٹی کے مدمقابل ایک ہی انتخابی نشان کے تحت انتخاب لڑا تھا‘ اسی طرح جب آئی جے آئی کا اتحاد بنا تو جماعت اسلامی بھی اس کا حصہ تھی‘ جس میں جماعت اسلامی کے امیدواروں کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے مقابلے میں جماعت اسلامی نے جب اپنے نشان اور پرچم کے تحت انتخاب لڑا تو زیادہ کامیابی نہ ملی جس کی نمایاں مثال 2013ء کا الیکشن ہے۔ پنجاب کے بلدیاتی انتخاب میں جماعت اسلامی نے اس بار ایک نادر تجربہ کیا کہیں اس کے امیدواروں نے شیر کے نشان پر الیکشن لڑا اور کہیں بلے کے نشان پر‘ لیکن یہ تجربہ پنجاب میں کامیاب نہیں ہوا تو اسے تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ کراچی میں آزمایا گیا‘ لیکن وہاں بھی کامیابی نہیں ملی۔ اس الیکشن کے بعد جماعت اسلامی کو یہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آئندہ وہ کسی دوسری جماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد کرے گی‘ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے گی یا پھر اپنے نشان اور پرچم تلے انتخابی میدان میں اترے گی۔

مزید :

تجزیہ -