بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل ، کیا اندرونی استحکام آئے گا ؟

بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل ، کیا اندرونی استحکام آئے گا ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ چوہدری خادم حسین
گزشتہ روز سندھ اور پنجاب میں بلدیات کے تیسرے مرحلے کے انتخابات بھی ہو گئے اور یہ انتخابی ہنگامہ اپنے انجام کوپہنچا، اب اعتراضات اور اپیلوں کا سلسلہ شروع ہو گا تاہم اصولاً ماحول کو بتدریج معمول پر آجانا چاہئے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ نہ ہو سکے کہ فرزندِ راولپنڈی لنگوٹ کس کر نئی پیش گوئیوں کے ساتھ میدان میں آ گئے اور انہوں نے تحریک انصاف ہی کو ڈھال بنایا ہے، خود اُن کی اپنی جماعت کی تو یہ پوزیشن ہے کہ اس کے پاس تانگے کی سواریاں بھی نہیں ہیں وہ خود اکیلے اکلوتے رکن قومی اسمبلی ہیں اور اس حیثیت میں بھی وہ مسلم لیگ (ن) کو سانس نہیں لینے دینا چاہتے۔ اب پھر سے ٹیلی ویژن پر رونق افروز ہو کر مارچ تک حکومت جانے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ انہوں نے عمران خان کی تحریک انصاف اور متحدہ اپوزیشن سے امیدیں وابستہ کر لی ہیں، جس میں وہ خود بھی شامل ہو گئے اور ہم بھی ہیں پانچوں سواروں کے مطابق انہوں نے اپنی جماعت پاکستان عوامی مسلم لیگ کو اس کا حصہ بنایا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں کبھی ٹھہراؤ نہیں آیا۔ آمریت میں بھی کسی تحریک کے منظم ہونے تک حالات نارمل نظر آتے ہیں اور پھر مخالفت شروع ہو تو تحریک بھی بن جاتی ہے۔ چنانچہ یہاں یہی کھیل ہوتا رہتا ہے۔اب بظاہر جو متحدہ اپوزیشن بنی وہ متضاد نظریات اور خیالات کی حامل جماعتوں پر مشتمل ہے، لیکن مُلک میں مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ اس اتحاد کو مواقع ملتے رہیں گے اور روز بروز یہ مضبوط بھی ہو گا کہ حکمرانوں کی طرف سے غلطیاں تو ہوں گی۔
ذرا غور کیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ حکومت عوام کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے۔ وزیرخزانہ محترم آئی ایم ایف سے قرض لینے کی خاطر ٹیکس پر ٹیکس لگائے چلے جا رہے ہیں اور دُنیا سے ملنے والی کسی بھی ریلیف کا ثمر عوام تک نہیں پہنچنے دیتے، جیسے پٹرولیم کے نرخوں کے حوالے سے کیا گیا اور اب ڈالر مہنگا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے بڑی آسانی اور سہولت سے خود اپنے محکمے کی کوتاہی کا بدلہ لیا اور پہلی سہ ماہی کا خسارہ پورا کرنے کے لئے 40ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کر دیئے ہیں اور ان کی پیشانی پر بَل بھی نہیں پڑا۔
پاکستان اس وقت مشکل حالات میں ہے اور ہزاروں جانوں کی قربانی کے باوجود دہشت گردی کے الزام سے جان نہیں چھڑا پا رہا،اب امریکہ میں جو ہُوا اس میں بھی پاکستان ہی کا نام آ رہا ہے۔اگرچہ حکومت نے اِس امر کی تردید کی ہے کہ لندن میں وزیراعظم سے امریکہ کے خصوصی ایلچی نے ملاقات کر کے کیلی فورنیا کے واقع میں ملوث تاشفین ملک کی شہریت کے ثبوت دیئے تاہم یہ پس منظر تو سامنے آ گیا کہ تاشفین ملک کا تعلق لیہ کے ایک خاندان سے ہے اور اس نے بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی سے گریجوایشن کی، اور ویزا بھی پاکستان ہی سے حاصل کیا تھا ان کے شوہر کا تعلق بھی یہیں سے ظاہر کیا جا رہا ہے،حالانکہ وہ امریکہ میں پیدا ہوئے دہشت گردی کی اِس کارروائی سے بہت نقصان پہنچا اور ایک مرتبہ پھر لال مسجد بریگیڈ کی بات کی جانے لگی ہے۔ یہ پوچھا جا رہا ہے کہ لال مسجد کے مولانا کے خلاف کیوں کارروائی نہیں کی جاتی؟ اور اب تو دباؤ بڑھے گا۔ ایسے میں مُلک کے اندر استحکام کی سخت ضرورت ہے، جو نہیں ہو پا رہا،کیا حکمران جماعت ان امور اور ان کی وجوہات پر غور کرنے پر آمادہ ہے؟ اور یہ بھی سوچ لینا چاہئے کہ ایسے حالات مودی کے لئے سازگار ہوں گے، جو مسلسل معاندانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ادھر افغانستان کے صدر ہز ماسٹر وائس کے مصداق مسلسل الزام تراشی کر رہے ہیں کہ پاکستان مداخلت کر رہا ہے، حالانکہ یکے بعد دیگرے ان کو یقین دلایا گیا کہ یہ غلط ہے، اب انہوں نے اسی ہفتے اسلام آباد آنا ہے، لیکن اس سے پہلے ہی کتاب بھی آ گئی اور الزام بھی لگا دیا، اب پھر پاکستان کے خلاف الزام تراشی کی گئی ہے اور انہوں نے ’’جنگ‘‘ جیسے الفاظ استعمال کئے،ایسے میں حکمرانوں کو زعم سے باہر آنا چاہئے اور قومی امور کے لئے قومی مصالحتی پالیسی پر غور کرنا چاہئے۔

مزید :

تجزیہ -