کیا نیپال بھارتی تسلط سے نکل پائے گا؟

کیا نیپال بھارتی تسلط سے نکل پائے گا؟
 کیا نیپال بھارتی تسلط سے نکل پائے گا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مودی سرکار کی 2014 ء میں اعلان کر دہ خارجہ پالیسی کے مطابق ہمسایوں کو ترجیحی درجہ دیا جانا تھا ،لیکن صورت حال اس کے برعکس ہے۔ اس وقت انڈیا کے سات ہمسایوں میں سے کسی کے ساتھ بھی اچھے تعلقات نہیں۔نیپال جو علاقے کی واحد ہندو ریاست ہے اور اب تک بھارت کے زیر اثر رہا ہے وہ بھی بھارتی عمل دخل کی وجہ سے بدامنی کا شکار ہو رہا ہے۔ لہذانیپال بھی بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے زمرے میں پاکستان ، چین اور مالدیپ کے کیمپ میں شامل ہورہا ہے۔


رواں سال اوائل میں بھارت نیپال تعلقات میں درآنے والی کشیدگی نے نئی دہلی اورکھٹمنڈو کے درمیان تنازع کو مزید عیاں کر دیا۔ نیپالی حکومت نے بھارت میں تعینات اپنا سفیر واپس بلا لیا، جبکہ ملکی معاملات میں ہمسایہ ملک بھارت کی ’’دخل اندازی‘‘ کی وجہ سے نیپالی صدر نے اپنا نئی دہلی کا دورہ بھی منسوخ کر دیا ۔ مبصرین کچھ عرصے سے صورت حال کے اس نہج تک پہنچ جانے کے خطرے کومحسوس کر رہے تھے۔ اس تنازع کا باعث نیپال کی ہندو آبادی ، مدیسیوں کے آئینی حقوق کا مسئلہ ہے، تاہم یہ مسئلہ بھی گہرا ہوچکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نیپال کی نئی حکومت نے وزیر اعظم کے پی شرما اولی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت نواز پالیسی سے انحراف کرکے خارجہ پالیسی میں نئی تبدیلیاں کی ہیں۔ اس سے پہلے بھارت نیپال کی خارجہ پالیسی کوکنٹرول کرتا تھا ، لیکن اب نئی دہلی میں یہ سوچ گہری ہوتی جاتی رہی ہے کہ یہ ہاتھ سے نکل رہا ہے۔بھارتی ایجنڈا یہ ہے کہ نیپال میں جوبھی حکومت تبدیل ہو،وہ انڈیا کے ماتحت ہی رہے۔ اس کے علاوہ کوئی صورت حال انڈیا کے لئے قابل قبول نہیں ہوگی۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ انڈیا خطے کی چھوٹی ریاستوں کے لئے بدمعاش بننے کے راستہ پر گامزن ہے۔نیپال میں را کے ایجنٹ نیپالی باغیوں کی کھل کر مدد کر رہے ہیں اور انہیں نیپال کے خلاف بغاوت پر اکسارہے ہیں۔بھارت اپنے ہمسایہ ہندو ملک نیپال کو بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ بھارت کی خفیہ ایجنسیاں نیپال میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ بھارت بھوٹان اور نیپال پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ اس سے پہلے وہ ریاست سکم پر قبضہ کر چکا ہے۔


حقیقت یہ کہ نیپال میں بھارت مخالف جذبات کا سونامی ابل رہا ہے۔ اگر بھارت نے اپنی پالیسی جاری رکھی تواس کی شدت میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس وقت انڈیا میں داخلی طور پر بہت سی علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں چنانچہ اپنے ہمسائے میں انتشار اس کے کے حق میں اچھا نہیں ہو گا۔ اس وقت انڈین اسٹبلشمنٹ اورحکمران اشرافیہ اس قیمت کا اندازہ لگارہے ہیں، جونیپال پر قبضہ جمانے کی صورت میں ان کو اداکرنی پڑے گی۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بھارتی ایجنسیاں سیاسی ہارس ٹریڈنگ کی ماہر ہیں۔ چنانچہ ماہرانہ توڑ اولی حکومت کو چلتا کیا جا سکتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ بھارت اپنے مسائل خو د نمٹائے اور ہمسایوں کے ساتھ امن سے رہا جائے۔


اب بظاہر یہ بات نا ممکن لگتی ہے کہ نیپال میں کوئی بھی حکومت انڈیا کے سامنے گھٹنے ٹیکے گی، لیکن ایسا ہوا ہے کہ نیپالی حکومت نے بھارت کے سامنے اپنے عوام کی خواہشات کے برعکس گھٹنے ٹیکے ہیں۔اسی ماہ کے اوائل میں بھارتی صدر پرناب مکھر جی نے نیپال کا دورہ کیا تو وہاں کی حکومت نے ایک دن کی سرکاری چھٹی کر دی۔ جس پر نیپالی عوام سیخ پا ہوگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب تو نیپال میں جمہوریت ہے نہ کہ بادشاہت ۔ تو پھر یہ چھٹی کیوں؟ کیا اس سلسلے میں پارلیمنٹ اور عوام کو اعتماد میں لیا گیا؟ نیپالی عوام کا کہنا تھا کہ ہم بھارت کے چنگل سے نکلنا چاہتے ہیں مگر جمہوری حکمران بھی ہمیں بھارت کا غلام بنانا چاہتے ہیں۔بھارت ہمیں کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ وہ ہمیں اپنے زیر انتظام سمجھتا ہے۔ ہم پر تسلط جمانا چاہتا ہے۔ بھارت ہم سے برابری کی بنیاد پر بات نہیں کرتا۔ کیا کل جب نیپالی صدر بھارت کا دورہ کریں گے تو دہلی میں چھٹی ہوگی؟ اس سوال کا جواب تو شاید نیپالی حکمرانوں کے پاس نہیں مگر وہ مستقبل میں بھارتی غاصبانہ چال کے خلاف نیپالی عوام کے ساتھ مل کر ان کی خواہشات کے مطابق اقدامات کر سکتے ہیں اور انہیں اپنے ملک کی سلامتی اور عزت کے لئے ایسا کرنا بھی چاہیے۔

مزید :

کالم -