بلاول بھٹو زرداری۔۔۔اگلے وزیرِ اعظم
میں اکثر یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوتا رہتا ہوں کہ پاکستان کا اگلا وزیرِ اعظم کون ہوگا؟ پہلے میرا خیال تھا کہ عمران خان اگلے وزیرِ اعظم ہوں گے لیکن جب میاں صاحب نے اعلان فرمایا کہ اگلا الیکشن بھی ہم ہی جیتیں گے اور دھرنے والے دھرے رہ جائیں گے تو مجھے یقین ہوگیا کہ اگلے وزیرِاعظم بھی نواز شریف ہی ہوں گے۔ ظاہر ہے جب ن لیگ الیکشن جیتے گی تو وزیرِ اعظم کوئی اور تو ہو نہیں سکتا۔ جس پارٹی میں کوئی شخص وزارتِ خارجہ چلانے کا اہل بھی نہ ہو، اُس میں وزارتِ عظمیٰ کا بوجھ کون اُٹھا سکتا ہے ما سوائے تجربہ کار میاں صاحب کے۔ ویسے تو محترمہ مریم صفدر صاحبہ (معاف کیجئے گا مریم نواز صاحبہ) بھی پر تول رہی ہیں۔ برخوردار حمزہ شہباز کا وزیرِ اعظم ہونا بھی بنتا ہے۔ وہ کافی عرصے سے حکومت چلانے کی ریہرسل کررہے ہیں۔ باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ امورِ مملکت چلانا اب ان کے بائیں ہاتھ کا کام ہے مگر وہ دائیں ہاتھ کو بے کار رکھنا پسند نہیں کرتے چنانچہ دونوں ہاتھوں سے کام لے رہے ہیں لیکن اگر تایا جان نے Extension لینے کا ارادہ کرلیا تو اگلے اُمیدوار کو مزید چار پانچ سال انتظار کرنا پڑے گا۔
میں مطمئن تھا کہ اگلی وزارتِ عظمیٰ کا مسئلہ بھی حل ہوگیا۔ لیکن کل سے میں پھر اِسی مخمصے کا دوبارہ شکار ہوگیا ہوں۔ برخوردار بلاول نے جس کا سیاسی نام بلاول بھٹو زرداری ہے ، اعلان فرمایا ہے کہ 2018ء میں وہ وزیرِ اعظم ہوں گے۔ انہوں نے قوم کو یہ اطلاع بھی دی ہے کہ چاروں صوبوں میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہوگی ۔ غالباً اُن کے اُستاد نے انہیں ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ ایک پانچواں صوبہ بھی بن چکا ہے اور اگر برخوردار بلاول نے اُدھر توجہ نہ کی تو وہاں کسی اور پارٹی کی حکومت بن سکتی ہے۔ اب جب یہ طے ہوگیا ہے کہ اگلے وزیرِ اعظم بلاول ہوں گے تو مجھے مطمئن ہوجانا چاہیے لیکن چند خدشات مجھے مسلسل پریشان کررہے ہیں۔ ایک مسئلہ برخوردار کی عمر کا تھا جسے جناب عبداللطیف کھوسہ نے (جن کے پاس زرداری خاندان کا شجرہ نسب ہے) حل کردیا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ 2018میں برخوردار بلاول وزیرِ اعظم بن سکتے ہیں کیوں کہ پاکستان کے آئین کی رُو سے 25سال سے بڑا لڑکا وزیرِ اعظم بن سکتا ہے (جس طرح ہندوستان کے آئین کی رُو سے ایک پاگل شخص بھی وزیرِ اعظم بن سکتا ہے)۔
ظاہر ہے کہ بلاول کے پیارے ڈیڈی تو بلاول کے رستے میں نہیں آئیں گے کیونکہ وہ وزیرِ اعظم بننے کے بجائے صدر بننا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ میرے خیال میں بلاول کو باہر سے نہیں بلکہ اندر سے مسائل درپیش ہوں گے ۔میری معلومات کے مُطابق سابق وزیرِ اعلیٰ سندھ جناب قائم علی شاہ اپنے پوتے دائم علی شاہ کو پاکستان کا اگلا وزیرِ اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ لڑکا خاصا تیز ہے اور اِسے عمر کے معاملے میں بلاول پر فوقیت حاصل ہے۔ وہ بلاول سے دو سال بڑا ہے۔ میرے خیال میں جناب قائم علی شاہ کو اتنی لمبی چھلانگ نہیں لگانی چاہیے۔ وُہ اگر بلاول سے سند ھ کی وزارتِ اعلیٰ مانگ لیں تو بلاول کو مان لینا چاہیے۔ دوسری صورت میں پھڈّا ہے اور پھڈّا کسی بھی وزیرِ اعظم یا ہونے والے وزیرِ اعظم کے لئے مصیبت کا باعث بن سکتا ہے۔ سچ پوچھیں تو مجھے رحمان ملک سے بھی خطرہ ہے۔ جب پیپلز پارٹی مرکز میں اکثریت حاصل کرلے گی یہ شخص سازشیں شروع کر دے گا۔ تاہم بلاول کو میرا مشورہ ہے کہ اِس شخص کو پھر وزیرِ داخلہ یعنی وزیرِ دخل در معقولات بنا دے۔ اُسے اِس کام کا خاصا تجربہ ہے۔ایک اور بات جس کے بارے میں مجھے خاصی پریشانی ہے وہ یہ ہے کہ جب بلاول کی term ختم ہوجائے گی یعنی جب وہ وزیرِاعظم نہیں رہے گا اُس وقت اُس کی عمر صرف 29سال ہوگی ۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کی عمر تو نہیں ہے نا۔ آپ ہی انصاف سے کہیے 29سال کا جوان ریٹائرڈ پرائم منسٹر کہلائے گا تو کتنا عجیب لگے گا۔ میں تو جب جنرل راحیل شریف کے نام کے آگے جنرل (ریٹائرڈ) پڑھتا ہوں تو سخت تکلیف ہوتی ہے۔ یہ عمر اُن کے ریٹائر ہونے کی نہیں تھی۔ بلاول تو ان سے کہیں چھوٹا ہے۔
اِس اُلجھن کا ایک ہی حل میری سمجھ میں آتا ہے وُہ یہ کہ بلاول دوسری بار بھی خود ہی وزیرِ اعظم بن جائے۔ اگر بیچ میں وقفہ ڈالنا چاہے تو ایک باری ن لیگ کو دے کر اگلی بار پھر وزیرِ اعظم بن جائے۔ اِس صورت میں ریٹائرمنٹ کے وقت بلاول کی عمر تقریباً 40سال ہوگی۔ حکماء کا کہنا ہے کہ چالیس سال کی عمر میں اِنسان کی عقل پُختہ ہوتی ہے۔ اِس سے پہلے تو انسان اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہے۔ دُنیا کی بڑی بڑی حماقتیں ان لوگوں نے کیں جن کی عمر 40سال سے کم تھی۔ یہ عمر تو بڑے کام شروع کرنے کی ہے نہ کہ ریٹائرمنٹ کی لہٰذا بلاول کو تیسری بار بھی وزیرِ اعظم بننا پڑے گا اور یہ اِس لئے بھی ضروری ہے کہ اُس نے پہلی دو TERMS میں یقیناًکئی حماقتیں کی ہوں گی۔ اگر وہ تیسری بار وزیرِ اعظم نہ بنا تو ان حماقتوں کا ازالہ کون کرے گا! یہ بات میاں صاحب پر صادق نہیں آتی۔ اِس لئے کہ انہوں نے تینوں باریاں 40 سال کی عمر کے بعد لی ہیں۔ وُہ چوتھی باری بھی لے سکتے ہیں لیکن ستّر بہتّر سال سے پہلے انھیں یہ سلسلہ ختم کرنا پڑے گا۔ آپ سمجھ سکتے ہیں میں یہ بات کیوں کہہرہا ہوں۔ میرا ایک بے تکلف دوست مجھے ستّرہ بہتّرہ کہتا ہے حالانکہ کہ وہ خود بھی 72سال کا ہے۔ اُس کی اِس حرکت سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ واقعی ستّرہ بہتّرہ ہوگیا ہے۔
اب ہم اِس مسئلے کے ایک اور پہلو کی طرف آتے ہیں۔ وُہ یہ کہ بار بار وزیرِ اعظم بننا کتنا پریشان کن ہوتا ہے؟ الیکشن مہم، الیکشنز ، لڑائی جھگڑے، مقدمے ، قتل و غارت، اسمبلیاں، بحث مباحثے، سازشیں ان تمام تکلیف دہ مرحلوں سے گزرنے کے بعد انسان وزیرِ اعظم بنتا ہے اور وُہ بھی صرف چار پانچ سال کے لئے۔اتنے مختصر عرصے میں کام شروع تو کیے جاسکتے ہیں، لیکن ایک بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچنا۔ اگلی باری اگر مخالف پارٹی کی ہو تو اُس کا وزیرِ اعظم پہلے وزیرِ اعظم کو نالائق، کرپٹ ، ملک دشمن وغیرہ قرار دے کر اُس کے شروع کئے ہوئے تمام کاموں پر خطِ تنسیخ کھینچ دیتا ہے اور ان کے فنڈز اپنے منصوبوں پر لگا لیتا ہے۔ یوں ملک کو اربوں روپوں کا نقصان ہوتا ہے۔ اِس نظام میں اور بھی کئی قباحتیں ہیں جن کا ذکر کرنے کا وقت نہیں۔ اِس سنگین مسئلے کا حل یہ ہے کہ آئین میں ایک ترمیم کی جائے وہ یہ کہ ایک وزیرِ اعظم اُس وقت تک وزیرِ اعظم رہے گا، جب تک لوگ اِس کو اُٹھا کر جیل میں نہ ڈال دیں۔ اِس آئینی ترمیم کے بعد جو بھی وزیرِ اعظم بنے گا، لوگوں کو خوش رکھنے کی پوری پوری کوشش کرے گا۔ جیل جانے کے خوف سے وہ کوئی غلط کام نہیں کرے گا۔ اُس کی کوشش ہوگی کہ میں اتنے اچھے کام کروں کہ مرتے دم تک وزیرِ اعظم رہوں۔ میری اِس بے نظیر تجویز پر ہنسنے کی ضرورت نہیں۔ سنجیدگی سے اِس تجویز پر غور فرمائیں۔ میں نے اِس تجویز میں کوٹ کوٹ کر عقل بھردی ہے۔ پاکستان کے عوام کی حالت سدھارنے کا یہی ایک نسخہ ہے۔ اچھا خُدا حافظ۔