پاک امریکہ تعلقات کا تازہ دور

Dec 06, 2017

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی خفیہ پناہ گاہیں نہیں ہیں، تاہم مُلک بھر میں انٹیلی جنس آپریشنز جاری رہیں گے یہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ چار سال میں حاصل کامیابیوں کو مستحکم کیا جائے گا اور دہشت گردی کی ہر شکل اور قسم کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جائے گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان امن کے لئے اپنی استطاعت اور وسائل سے زیادہ کام کر چکا ہے اور ہم بین الاقوامی برادری کے ایک ذمہ دار رکن کی حیثیت سے اپنی کوششیں جاری رکھنے کے لئے پُرعزم ہیں۔انہوں نے بھارت کی جانب سے افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے پر تشویش کا اظہار کیا۔ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کیں۔امریکی وزیر دفاع نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف جنگ میں پاکستان اپنی کوششوں کو دُگنا کرے، پاکستان اور امریکہ مل کر افغان امن عمل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں،جبکہ شراکت کی مستقل راہ تلاش کر رہے ہیں۔
امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کا یہ پہلا دورۂ پاکستان تھا،اِس سے پہلے گزشتہ ماہ بھی امریکہ کا اعلیٰ سطح کا ایک وفد دورہ کر چکا ہے، اِن سب دوروں کا بنیادی مقصد تو نئی امریکی پالیسی کے تناظر میں خطے میں امن و استحکام کے قیام کے مقصد کو آگے بڑھانا ہے،امریکہ کی جانب سے پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف تو کیا جاتا ہے،لیکن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جب اُنہیں کہتے ہیں کہ پاکستان اپنی استطاعت اور وسائل سے زیادہ کام کر چکا ہے تو اس صاف اور واضح پیغام کے جواب میں بھی اگر امریکہ ’’کوششوں کو دُگنا‘‘ کرنے کی بات کرے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان نے جو کوششیں کی ہیں وہ ناکافی ہیں اور انہیں دُگنا کرنے کی ضرورت ہے، پہلے اِس کے لئے ڈو مور کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی، اب نئی ترکیب سامنے لائی گئی ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے لئے ایسا کرنا موجودہ حالات میں ممکن بھی ہے یا نہیں؟
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے واضح کر دیا ہے کہ مُلک میں دہشت گردوں کے کوئی ٹھکانے نہیں ہیں، تاہم انٹیلی جنس آپریشنز جاری رہیں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی جگہ کے بارے میں ایسی اطلاع ملے گی کہ وہاں دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود ہیں یا وہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں یا کسی گروہ کی ایسی سرگرمیاں ہو رہی ہیں جو دہشت گردی کا منصوبہ بنا رہے ہیں یا اِس کی تیاری کر رہے ہیں تو وہاں آپریشن ہوگا،پاکستان امریکہ سے بھی کئی دفعہ یہ کہہ چکا ہے کہ اگر اس کے پاس دہشت گردوں کی موجودگی کی کوئی اطلاعات ہوں تو وہ پاکستان کو آگاہ کرے اس کی بنیاد پر آپریشن کیا جائے گا،لیکن امریکہ نے ایسی کوئی اطلاع تو نہیں دی۔البتہ عمومی طور پر یہ راگ ضرور الاپا جاتا ہے کہ پاکستان کے اندر اب بھی دہشت گردوں کے خلاف کوششوں کو دوگنا کرنے کی ضرورت ہے اب اگر پاکستان اپنی استطاعت اور وسائل(بلکہ اس سے بھی زیادہ) کے مطابق اپنی کوششیں پہلے ہی صرف کر چکا ہے تو مزید کوششیں کیسے کی جائیں گی اور اس کے لئے مطلوبہ صلاحیت اور وسائل کہاں سے آئیں گے؟
دہشت گردی کی جنگ ایک پیچیدہ عمل ہے، خود امریکہ کو بھی افغانستان میں موجودگی کے باعث اس کا پوری طرح نہ صرف ادراک ہے،بلکہ اس کی سپاہ افغانستان میں شب و روز ایسے تجربات سے گزرتی رہتی ہے، تمام تر کوششوں اور اقدامات کے باوجود دہشت گرد کہیں نہ کہیں واردات کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں،ہائی سیکیورٹی زون کے اندر بھی گھس کر دہشت گردی کر گزرتے ہیں اِس پر یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ امریکی اور نیٹو افواج افغانستان میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہیں اور کچھ نہیں کر رہیں،جو بات کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو کی کوششوں کے باوجود، دہشت گردوں کے خلاف پوری طرح کامیابی نہیں ہو پا رہی، ضرورت اِس بات کی ہے کہ امریکہ اور افغان فورسز مل کر نہ صرف افغانستان میں دہشت گردی پر قابو پائیں،بلکہ اُن کا پاکستان میں داخلہ بھی روکیں،حالیہ مہینوں میں پاکستان کے اندر جتنی بھی دہشت گردی ہوئی ہے اس کی تمام تر منصوبہ بندی اُن گروپوں نے کی جو افغانستان میں کمین گاہیں بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔سرحد پر واقع چیک پوسٹوں پر بھی حملے ہوتے رہتے ہیں،حفاظتی نقطہ نظر سے جو باڑ اس وقت زیر تعمیرہے اسے بھی نقصان پہنچایا جاتا ہے،پاکستان مسلسل دہشت گردانہ حملوں کی زد میں ہے، ابھی پانچ روز قبل پشاور میں زرعی ڈائریکٹوریٹ پر اُن دہشت گردوں نے حملہ کیا جو افغانستان سے آئے تھے، پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ سلسلہ رُکنے میں نہیںآرہا، اِس صورتِ حال میں امریکہ اگر کوششوں کو دُگنا کرنے کی بات کرتا ہے تو اسے ستم ظریفی کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے؟
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کے بعد امریکی وزیر دفاع اگر معاملات کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے قابل ہو گئے ہیں تو اس میں اطمینان کا پہلو ہو سکتا ہے،لیکن اگر وہ پاکستان کے دورے کے بعد بھی اپنی پہلے والی رائے پر قائم رہیں اور اس میں تبدیلی کی ضرورت محسوس نہ کریں تو یہ بدقسمتی کی بات ہوگی،لیکن امید ہے حالات کو سمجھنے کے لئے روشنی کی ایک کرن موجودہے،جس کی رہنمائی میں تعلقات کو بہتری کی جانب لے جایا جا سکتا ہے اور جہاں کہیں غلط فہمی کی گرد موجود ہے، سفارتی کوششوں کے ذریعے اسے صاف کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے خیال میں اگر اِن دوروں کے نتیجے میں تعلقات کی بہتری کاعمل شروع ہو جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ماض�ئ قریب میں تعلقات میں جو خرابی آئی تھی اس کی اصلاح کی جا رہی ہے۔

مزیدخبریں