ایک پیکج زندوں کے لیے بھی ہونا چاہیے
وزیر اعلی پنجاب نے دوران سروس انتقال کر جانے والے سرکاری ملازمین کے خاندانوں کو ملنے والی مالی امداد کی گرانٹ میں اضافے کی منظوری دے دی ہے جس پر محکمہ خزانہ پنجاب نے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا جبکہ بناولنٹ فنڈ سے سرکاری ملازم کی بیوہ کو ملنے والی ماہانہ گرانٹ میں بھی 50 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے ۔دوران سروس انتقال کر جانے کی صورت میں مالی امداد کے لئے جاری کئے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق گریڈ 1 تا 4 کے ملازمین کو 4 لاکھ کی بجائے 16 لاکھ روپے ، گریڈ 5 تا 10 کیلئے 6 لاکھ کی بجائے 19 لاکھ روپے ، گریڈ 11 تا 15 کیلئے 8 لاکھ کی بجائے 22 لاکھ روپے ، گریڈ 16 تا 17 کو 10 لاکھ روپے کی بجائے 25 لاکھ روپے، گریڈ 18 تا 19 کو 16 لاکھ روپے کی بجائے 34 لاکھ روپے جبکہ گریڈ 20 تا 22 کے سرکاری ملازمین کے خاندانوں کو 20 لاکھ روپے کی بجائے 40 لاکھ روپے مالی امداد کی گرانٹ دی جائے گی ۔ اس کے علاوہ بناولنٹ فنڈ سے سرکاری ملاز م کی بیوہ کو ملنے والی ماہانہ گرانٹ میں بھی 50 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے ۔ نوٹیفکیشن کے مطابق گریڈ 1 تا 10 کی بیوگان کو 1300 روپے کی بجائے 1950 روپے ، گریڈ 11 تا 15 کی بیوگان کو 1700 روپے کی بجائے 2550 روپے ، گریڈ 16 تا 17 کی بیوگان کو 3500 روپے کی بجائے 5250روپے ، گریڈ 18 تا 19 کی بیوگان کو 6000 روپے کی بجائے 9000 روپے اور گریڈ 20 تا اوپر ملازمین کی بیوگان کو ماہانہ گرانٹ کی مد میں 8000 روپے کی بجائے 12000 روپے ماہانہ دیئے جائیں گے جبکہ نان گزٹیڈ سرکاری ملازمین کو فوتگی کی صورت میں ملنے والی کفن دفن گرانٹ 6000 روپے سے بڑھا کر 12000 روپے اور گزٹیڈ ملازمین کی گرانٹ 10000 روپے سے بڑھا کر 20000روپے کردی گئی ہے۔ آئندہ سے سرکاری ملازم میاں بیوی دونوں کو بچوں کا تعلیمی وظیفہ ملاکرے گا ۔ اس سے قبل بناولنٹ فنڈ کی کٹوتی دونوں کی ہوتی تھی مگر تعلیمی وظیفہ میاں بیوی میں سے ایک کو دیا جاتا تھا۔
قارئین کرام ! حکومت کی طرف سے سرکاری ملازمین کیلئے اٹھایا گیا یہ قدم نہایت احسن اقدام ہے ۔ لیکن اس پیکج کی منظوری کے بعد جب میں نے اپنے ایک دوست کو مبارک باد، دی جو ایک سرکاری ملازم ہے تو اس نے کہا بھائی میں حکومت کے اس امدادی پیکج پر یہ ہی کہہ سکتا ہوں کہ( زندہ ہاتھی لاکھ کا اور مردہ ہاتھی سوا لاکھ کا)کیونکہ یہ امدادی پیکج مرنے کے بعد لا گو ہوگا اور مرنے کے بعد بھی اس کا فائدہ ہمارے ان اہلخانہ کو ہوگا جن کی جائز ضروریات بھی ہم اپنی زندگی میں پورا نہیں کر پاتے، ہاں ایک فائدہ ضرور مرنے والے کو ہو سکتا کہ اس کے مرنے کہ بعد اس کے لواحقین اس کیلئے اتنا ضرور کہہ دیا کریں گے کہ بے چارہ خود تو مر گیا لیکن ہمارا بھلا کر گیا ۔میر ے اس دوست کا تبصرہ بھی اپنی جگہ درست ہے کیونکہ اگر دیکھا جائے توہمارے ملک میں سرکاری ملازمین کئی مشکلات سے دو چار ہیں ۔ہمارے ملک میں سرکاری ملازمین کی تعداد لاکھوں میں ہے اور ان کے زیر کفالت افرادیعنی ان کے اہلخانہ کو ملا کے یہ تعداد کروڑوں میں چلی جاتی ہے ۔ جس طرح کسی بھی ملک میں سرکاری ادارے اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثت رکھتے ہیں ،اسی طرح سرکاری اداروں میں سرکاری ملازمین کی بھی حیثت ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے۔ اس طبقے کا سارا انحصار اس کی تنخواہ پر ہوتا ہے، ہمارے ملک میں اس طبقے کو جن مشکلات کا سامنا ہے،اس میں سر فہرست ہے ان کی تنخواہ ہے جو مہنگائی کے اعتبار سے کافی کم ہے ۔سال کے بعد مہنگائی تو 100 فیصد بڑھ جاتی ہے لیکن ان کی تنخواہ بڑھتی ہے صرف 10 فیصد ۔ رواں مالی سال کے بجٹ کو بطور مثال پیش کرتے ہوئے ملازمین کا کہنا ہے کہ اس سال بھی تنخواہوں میں صرف 10 فیصد اضافہ کیا گیا،جو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور تیزی سے بڑھتی ہو بجلی کی قیمتوں کے پیش نظر آٹے میں نمک کے برابر ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی اکثریت موجودہ حکومت سے نالاں نظر آتی ہے ۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرکاری ملازمین کے ساتھ حکومت کے اس ناروا سلوک کی اصل وجہ کیاہے ؟ کیا حکومت وقت یہ سمجھتی ہے کہ سارے سرکا ری ملازمین کرپٹ ہوتے ہیں؟ یا شاید وہ یہ سمجھتی ہے کہ سارے سرکاری ملازمین کام چور ہوتے ہیں ؟ یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت سمجھتی ہو کہ سرکاری ملازمین کسی اور دنیا کی مخلوق ہو تے ہیں؟ ۔ ہو سکتا ہے انہی وجوہات کو جواز بنا کر موجودہ حکومت سرکاری ملازمین کو ریلیف دینا مناسب نہ سمجھتی ہو؟ یہ سب باتیں مفروضوں پہ مبنی ہیں، ہو سکتا ہے یہ مفروضے درست بھی ہوں اور ہو سکتا ہے یہ مفروضے درست نہ بھی ہو ں ۔ہم انہی مفروضوں کو بنیاد بنا کر بات کر لیتے ہیں ، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اچھے اور برے لوگ تو ہر جگہ موجود ہوتے ہیں سب کے سب ملازمین کرپٹ اور کام چور بھی نہیں ہوں گے اور سب کے سب نیک اور پارسا بھی نہیں ہوں گے۔ البتہ ایک بات تو طے ہے کہ سب کے سب سرکاری ملازمین ہیں اسی دنیا کی مخلوق۔ جس طرح حکومت میں موجود سب لوگوں کو ایک صف میں کھڑا نہیں کیا جاسکتا اسی طرح سب سرکاری ملازمین کو بھی ایک ہی صف میں کھڑا کرنا ان کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ سرکا ری اداروں میں کرپشن عام ہے اور حکومت کی تمام کو ششوں کے باوجود یہ کرپشن کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہے ،حکومت کو اس بڑھتی ہوئی کرپشن کے محرکا ت کو بھی سمجھنا چاہیے ،کیونکہ جب ملازمین کی جائز ضروریات بھی ان کی تنخواہ سے پوری نہیں ہونگی تو وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کرپشن کی جانب مائل ہونگے ۔اور سرکاری ملازمین کو بھی چاہیے کہ وہ بھی کم تنخواہوں اور ناکا فی سہولیات کو جواز بنا کرکرپشن کی راہ کو ہموار نہ کریں کیونکہ برائی تو ہر حال میں برائی ہوتی ہے ۔ اب بھی سرکاری اداروں میں بہت سے افسران اور چھوٹے ملازمین موجود ہیں جو اپنی تمام تر مجبوریوں اور مالی مسائل کے باوجود کرپشن جیسے ناسور سے کوسوں دور ہیں ۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔