امریکہ نیک خواہشات کو عملی اقدامات سے ہم آہنگ کرے

امریکہ نیک خواہشات کو عملی اقدامات سے ہم آہنگ کرے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے کہا ہے کہ چالیس سال افغان جنگ کے لئے بہت ہیں اب افغان امن معاملے پر سب کو شریک کرنے کا وقت آ گیا ہے، افغان جنگ کے خاتمے کے لئے سفارتی کوششیں جاری رکھیں گے۔ اقوام متحدہ سمیت اُن تمام ممالک سے تعاون کیا جائے گا،جو دُنیا کو بہتر بنانے کے لئے امن کوششیں کر رہے ہیں، افغان امن اور عوام کے تحفظ کے لئے اپنی بہترین کوششیں کریں گے۔انہوں نے یہ باتیں پینٹاگون میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کیں۔ نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے اپنے دورۂ پاکستان میں وزیر خارجہ سمیت دفتر خارجہ کے حکام سے تبادل�ۂ خیال کیا، ان ملاقاتوں میں وزیراعظم عمران خان کے نام صدر ٹرمپ کے خط کی مزید تفصیلات سامنے آئیں، خلیل زاد نے افغانستان میں قیام امن کے لئے تعاون طلب کیا، جس کے جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان میں پُرامن سیاسی تصفیہ کے لئے ہم اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔افغانستان میں امن کیسے قائم ہو سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب ہر کوئی اپنے اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے،امریکہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے،لیکن اس کی خواہش ہے کہ وہ وہاں سے اس طرح نہ نکلے جس طرح اُسے ویت نام سے نکلنا پڑا تھا اور غالباً اِسی شکست کا داغ دھونے کے لئے وہ افغان جنگ کو طول دیتا آ رہاہے۔سترہ سالہ افغان جنگ میں جو امریکہ کے افغانستان پر فضائی حملوں سے شروع ہوئی بہت سے موڑ ایسے آئے تھے، جب امریکہ اگر وہاں سے نکل جاتا تو حالات بھی بہتر ہو جاتے اور کوئی یہ بھی نہ کہتا کہ امریکہ نامراد لوٹ گیا ہے،لیکن مختلف امریکی صدور غالباً یہ چاہتے تھے کہ جب وہ واپس جا رہے ہوں تو اُن کے فوجیوں کے سینے پر فتح کا تمغہ سجا ہو یہ چونکہ آج تک ممکن نہیں ہوا، اِس لئے امریکہ تمام تر کوششوں کے باوجود اب تک افغانستان کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔
صدر بش نے افغانستان پر حملہ کیا اور وہاں کے پہاڑوں پر کارپٹ بمباری کر کے خود ہی یہ فیصلہ کر لیا کہ اب اُن کے خلاف وہاں کوئی مزاحمت نہ ہو گی اور طالبان کی قوت تِتّر بتّر ہو گئی ہے، جو دوبارہ مجتمع نہ ہو سکے گی، لیکن اُن کے دورِ صدارت ہی میں طالبان آہستہ آہستہ پھر سے قوت پکڑنے لگے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے بعد آنے والے صدر نے افغانستان سے امریکی افواج واپس بلانے کا نعرہ لگایا،لیکن جب انہوں نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے کمانڈروں سے مشاورت شروع کی تو اُن کا مشورہ اُن کی رائے کے برعکس تھا۔انہوں نے نہ صرف افغانستان سے فوج واپس بُلانے کی مخالفت کی،بلکہ اُلٹا یہ مطالبہ کیا کہ فوج کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ امریکہ حالات کو اپنے حق میں بدل سکے۔ اِس کے بعد فوج واپس بلائی جائے، طویل مشاورت کے بعد صدر اوباما نے اپنا ارادہ بدل دیا اور مزید افواج افغانستان بھیج دیں۔اِس دوران ایک سینئر جرنیل کو برطرف بھی کیا، جنہوں نے صدر سمیت امریکی سیاست دانوں کا مذاق اڑایا تھا۔افغانستان میں مطلوبہ مقاصد آج تک حاصل نہیں ہوئے۔
صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے اپنے دونوں پیشروؤں کی ناکامیوں کو نظر انداز کر کے فیصلہ کیا کہ وہ افغان مسئلے کا فوجی حل نکالیں گے اور طاقت کے ذریعے مخالفین کو زیر کریں گے یہ بات کہنے کو تو آسان تھی،لیکن صدر ٹرمپ کو بھی افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے ٹکرانے کے بعد جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ ایسا ممکن نہیں، تاہم اپنی جنگی ناکامیوں کا ذمہ دار انہوں نے پاکستان کو ٹھہرایا جو ’’امریکہ سے امداد لینے کے باوجود، اس کے لئے کچھ نہیں کر رہا تھا‘‘ چنانچہ انہوں نے نہ صرف مختلف مدوں میں پاکستان کی امداد روکنا شروع کر دی،بلکہ پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز طرزِ عمل بھی اپنا لیا،لیکن افغانستان میں امن کے لئے پاکستان کے کردار کو تسلیم کر کے اب دوبارہ یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان کی معاونت حاصل ہو جائے۔اب اگر امریکی وزیر دفاع کو یہ ادراک ہو گیا ہے کہ یہ وقت چالیس سالہ جنگ ختم کرنے کا ہے تو ضروری ہے کہ وہ اپنی سوچ کے دھارے کو عملی اقدامات سے ہم آہنگ کریں اور ایسے اقدامات اٹھائیں، جن کے ذریعے جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کا راستہ نکلتا ہو۔
امریکی حکام یہ احساس تو کر چکے ہیں کہ افغان طالبان وہاں کے بڑے سٹیک ہولڈر ہیں انہیں ختم کرنے کے دعوے درست ثابت نہیں ہوئے، آج بھی آدھے سے زیادہ افغانستان پر یا تو طالبان کسی نہ کسی طرح قابض ہیں یا وہاں ایسا اثرو رسوخ رکھتے ہیں کہ کابل حکومت کو بے اثر کر کے رکھ سکیں، ان طالبان کو مذاکرات کی پیش کشیں تو کی جاتی ہیں، پاکستان سے بھی کہا جاتا ہے کہ وہ انہیں مذاکرات کی میز پر لائے،لیکن یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طالبان ایک فولادی قوت ہیں موم کی ناک نہیں ہیں، جنہیں جو کوئی جب چاہے اپنی مرضی کے رُخ پر موڑ لے۔طالبان اگر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ مذاکرات سے پہلے غیر ملکی افواج اُن کی سرزمین خالی کر دیں تو اس کا جواب طاقت کا استعمال نہیں، دلیل سے اُنہیں قائل کریں کہ اس مسئلے پر بھی مذاکرات ہو سکتے ہیں اور اگر مذاکرات کامیاب ہوں گے، تو غیر ملکی افواج واپس بھی چلی جائیں گی،لیکن اگر اس کے جواب میں یہ کہہ دیا جائے کہ ایسا نہیں ہو سکتا تو ظاہر ہے مذاکرات کا سلسلہ آگے کیسے بڑھے گا؟ افغان طالبان کو امریکہ یہ پیشکش تو بالواسطہ طور پر کرتا رہتا ہے کہ وہ ’’مین سٹریم‘‘ میں آ جائیں، جس کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ افغان انتظامیہ کو کٹھ پتلی کی بجائے جائز حکومت تسلیم کر کے اپنے نمائندے حکومت میں شامل کر لیں اور مل کر کاروبارِ حکومت چلائیں۔لیکن افغان طالبان کبھی اس جال میں نہیں پھنسے۔
امریکی حکومت کو پہلے تو یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ افغان قوم کے نمائندے کون ہیں، کیا اُن لوگوں کو مقامی لوگ اپنا نمائندہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں، جنہیں امریکہ نے اپنے طے شدہ طریقِ کار کے مطابق انتخابات کے ذریعے کابل کے تخت پر بٹھا دیا، پہلے یہ اعزاز حامد کرزئی کے حصے میں آیا، پھر اُن کے بعد اب اشرف غنی برسر اقتدار ہیں،لیکن ان کو ہمیشہ سے معلوم ہے کہ اگر امریکی افواج آج واپس چلی جائیں تو اُن کا اقتدار قائم نہیں رہ سکتا، حامد کرزئی جونہی محروم اقتدار ہوئے وہ اپنے اور افغانستان کے دُکھوں کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دینے لگے اور دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہیں۔ اشرف غنی دوسرا کام تو کر رہے ہیں امریکہ کو موردِ الزام اس وقت ٹھہرائیں گے جب وہ بھی محروم اقتدار ہو جائیں گے، ایسے میں یہ فیصلہ خود امریکی قیادت کو کرنا ہے کہ وہ کٹھ پتلیوں پر دست شفقت رکھتے رہیں گے یا افغان سرزمین پر حکومت کرنے کا حق اُن لوگوں کو دیں گے، جنہیں افغان عوام چاہیں گے، طالبان کو اقتدار میں شرکت کی خواہش نہیں اور وہ ایسی پیشکشیں ماضی میں بھی مسترد کر چکے ہیں۔ البتہ مذاکرات کے لئے وہ جو شرائط رکھ رہے ہیں ان میں سے جائز شرطوں کو مان کر بات آگے بڑھائی جا سکتی ہے،اگر یہ کہہ کر مطالبہ مسترد کر دیا جائے کہ ’’مشروط مذاکرات‘‘ نہیں ہو سکتے تو پھر ہمیں گمان ہے کہ بات آگے نہیں بڑھے گی،ایسے میں ’’چالیس سالہ جنگ‘‘ ختم کرنے کی خواہش کو کیسے عملی جامہ پہنایا جائے گا امریکہ اس پر غور کر لے اور آگے بڑھنے کا راستہ نکالے۔

مزید :

رائے -اداریہ -