بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر؟

6دسمبر1992ء ۔۔۔تاریخ کاوہ دلخراش دن ہے جب مسلمانوں کی عظمت کی ایک نشانی،مغل بادشاہ وسپہ سالار ظہیرالدین بابرکے عہد(1528ء ) کی بنائی گئی 500 سالہ پرانی تاریخی بابری مسجد کوانتہاپسند ہندؤوں نے یلغار کرکے شہیدکردیا۔ان انتہا پسند ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ بابری مسجد ان کے خداراما (1500 ق م)کی جائے پیدائش ہے،اس پر گیارہویں صدی عیسوی میں مندرتعمیر کیاگیاتھا اوربعدمیں اسے گراکربابری مسجد بنائی گئی۔
ہندوؤں نے بابری مسجد کواپنے خداراما کی جنم بھومی قراردینے کادعویٰ سب سے پہلے 1855ء میں انگریزوں کے دورمیں کیا،گویاہندوؤں کوبابری مسجد بننے کے تقریباً 350سال بعد اور راما کی پیدائش کے تین ہزار تین سو پچپن (3355)سال بعدپتہ چلا کہ یہ توان کے راماکی جائے پیدائش ہے۔اسی سے اندازہ ہو جاتاہے کہ ان کی تاریخی تحقیق کی کیاحیثیت ہے۔ اگربابری مسجد واقعی ان کے خداکی جائے پیدائش ہوتی تویہ ان کی بہت بڑی یادگاراور مشہور تاریخی جگہ ہوتی۔ تاریخ میں سومنات اور دیگر مندروں کاحوالہ توملتاہے، لیکن مسلمانوں کے ہاتھوں راماکی جائے پیدائش والے مندر کے توڑنے اوراسے مسجد بنانے کاکہیں حوالہ نہیں ملتا۔
اگر مسلمانوں کے ہاتھوں سومنات اور دیگر مندروں کے توڑنے کاذکرمل سکتاہے توپھرراما کی جائے پیدائش والے مندر کے توڑنے کی شہرت توسب سے زیادہ ہونی چاہئے تھی اور مسلمان سپہ سالار بھی ایسے ہی مندروں کوتوڑنے میں زیادہ دلچسپی لیتے تھے جن پرہندوؤں کی عقیدت اور ضعیف الاعتقادی سب سے زیادہ ہوتی تاکہ ان کے عقیدے کوجھوٹاثابت کیا جاسکے۔
ایک قوم کے خداکی جائے پیدائش پر بنا ہوا مندر ہو اوراس کی شہرت کاذکرتاریخ میں نہ ہونے کے برابر ملے،اتنی بات ہی ہندوؤں کے دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔۔۔ویسے ہندوؤں کایہ کیساخدا ہے جوخداہوکربھی اپنی جنم بھومی اورجائے پیدائش کی حفاظت نہ کرسکا اور وہاں اس کے دشمن مسلمان اپنی عبادت گاہ تعمیرکرنے میں بھی کامیاب ہوگئے۔
ہندوؤں کے دعوے کے بے بنیاداور متعصبانہ ہونے کاایک اوربڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ محض بابری مسجد تک محدودرہناان کامذموم ہدف ومشن نہیں تھا،بلکہ وہ مسلمانوں کی تقریباً تمام پرانی تاریخی یادگاروں اور مساجدکو اپنا نشانہ بناناچاہتے تھے۔انگریزوں نے مسلم دشمنی میں ان کو شہ دی اور پھران کے دعوے بابری مسجد سے متھرا اور بنارس کی مساجد تک بڑھتے چلے گئے۔
نوبت بایں جارسید کہ تاج محل اورقطب مینار پربھی دعوے کر دئیے گئے کہ یہ بھی دراصل ہندوؤں کے مندر تھے۔بغض وحسداوراسلام دشمنی میں ڈوبے ہوئے ان ہندوؤں نے مسلم حکمرانوں کے تعمیرکردہ دنیاکے ساتویں عجوبے تاج محل کو خاص طورپر ایسانشانہ بنایا ہے کہ اب مودی حکومت اس کی مسجدمیں بھی مسلمانوں کے نمازپڑھنے پرپابندی لگاچکی ہے۔ آئندہ ان کے مزید کیاناپاک ارادے ہیں،وہ ان اقدامات سے صاف نظرآرہے ہیں کہ جوبھی ان کے بس میں ہوا،وہ سب کر گزریں گے،خاص طورپرمودی اوراس کے چیلوں کو الیکشن جیتنے اورحکومت بنانے کے لیے جس حد سے بھی گزرنا پڑا،وہ گزرجائیں گے۔بھارت میں 2019ء کے انتخابات جوں جوں قریب آرہے ہیں،دہشت گرد شیطان مودی کی اسلام دشمن شیطانی ذہنیت اسی قدر تیزرفتاری سے اپنے کارڈشوکررہی ہے۔
پہلے کشمیر اور بھارت کے مسلمانوں کو بری طرح کچل کے رکھا گیا۔ بھارتی مسلمان محض گائے کاگوشت رکھنے کے شک میں مارے جانے لگے، یہی الیکشن جیتنے کے لیے پاکستان سے مذاکرات کے دروازے مکمل بند رکھے گئے ہیں اور دہشت گردی کے لیے کلبھوشن نیٹ ورک کو پاکستان خصوصاً بلوچستان میں پھیلایا گیاہے۔
اسی الیکشن کے لیے آج کل بھارت کے مسلم ناموں والے اکثرمشہورتاریخی شہروں کے نام تک بدلے جارہے ہیں،یوں مسلمانوں سے بغض کا کھلا ثبوت دیاجارہاہے۔ صدیوں پرانے شہرالٰہ آباد کا نام پریاگ راج کردیاگیا ہے۔ فیض آباد کو پہلے ہی ایودھیا بنادیاگیاہے ۔بمبئی کو ممبئی بنادیاگیا۔ اسی طرح بھارت کے 25شہروں کے نام تبدیل کرنے کی منظوری بھی دی جاچکی ہے۔ اب6دسمبر کو بابری مسجد کے یوم شہادت پر رام مندر تعمیرکرنے کاگھناؤنا منصوبہ بھی مودی حکومت بناچکی ہے۔ بی جے پی بابری مسجد شہید کرکے ہی پہلی بار حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تھی،اب مودی یہ الیکشن دوبارہ جیتنے کے لیے رام مندر کا کارڈ ہی دوبارہ استعمال کرناچاہتاہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کی جائے شہادت پررام مندرکی تعمیرکے لیے بھارتیہ جنتاپارٹی اور اس کی ذیلی تنظیموں نے 50ہزار رضاکاروں کی بھرتی کاآغاز کردیاہے، جس میں وشواہندوپریشد کی جانب سے 25ہزار اور مہاراشٹر کی انتہاپسندتنظیم شیوسیناکی جانب سے 10ہزار رضا کاروں کو بھیجے جانے کااعلان کیاگیاہے جس سے ایودھیا اوراترپردیش کی سیاسی ومذہبی فضامیں بے چینی پھیل گئی ہے لیکن بھارتی انتظامیہ اور عدالت عظمیٰ اپنے کانوں میں تیل ڈالے بیٹھی ہیں۔
واضح رہے کہ بابری مسجد کے مقام پر رام مندرکی تعمیر کاکیس سپریم کورٹ میں ہے،تاہم اترپردیش کے مسلم دشمن وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے دیوالی پر ہندؤوں کو دئیے جانے والے پیغام میں کہا ہے کہ رام مندر ضرور بنایاجائے گااور اس کے لیے وہ اپنے ہاتھوں سے کام کریں گے۔ مسلمانوں کے خلاف آگ اگلنے والے بی جے پی کے وزیراعلیٰ یوگی کاایک ریلی سے خطاب میں دعویٰ تھاکہ وہ رام مندر کی جگہ پررام جی کی ایک بلندوبالا مورتی بناکر لگوائیں گے اور انہوں نے سپریم کورٹ آف انڈیا کانام لیے بغیر چیلنج کرتے ہوئے کہاہے کہ دیکھتے ہیں کس مائی کے لعل میں ہمت ہے کہ وہ رام مندر کی تعمیر میں رکاوٹ بنے۔
بھارتی جریدے امر اجالانے بتایاہے کہ ایودھیابھیجے جانے والے 50ہزاررضاکاروں کی بھرتی اوراسلحہ سمیت لٹھ بازی، ترشول چلانے کی تربیت اور ہندو دھرم کے اشلوک اور پاٹھ پڑھائے جارہے ہیں تاکہ یہ ہندورضاکارہرقیمت پررام مندرکی تعمیرکوممکن بنائیں،جنہیں ’’رام سینک‘‘ کانام دیاگیاہے۔
فیض آبادمیں موجود متعددبھارتی تجزیہ نگاروں نے کہاہے کہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اوران کے وزیروں کی زہر افشانی نے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دیاہے، کیونکہ یوگی کی جانب سے ایک خاص زعفرانی پرچم بناکرایودھیا میں ر ام لیلامقام پرنصب کیاگیاہے جو رام مندرکی تعمیر کامقام ہے اور اس سے وزیر اعلیٰ نے یہ پیغام بھیجاہے کہ ہرصورت میں 2019ء میں رام مندر کی تعمیر کا آغاز کیا جائے گا، کیونکہ یہ سال انتخابات کابھی ہے اورمودی حکومت ہرقیمت پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے جس کے لیے مودی’’رام مندر کارڈ‘‘ کھیلنا چاہتا ہے۔ آن لائن امریکی جریدے دائرڈ نے بتایاہے کہ رام مندر کاکیس اگرچہ سپریم کورٹ آف انڈیامیں سناجارہاہے لیکن زمینی حقیقت یہی ہے کہ رام مندر ایودھیا میں تعمیرکے مراحل سے گزررہاہے اور اس کی تعمیر کے لیے پتھروں اورستونوں کی کٹائی کاکام زوروشور سے جاری ہے اور نقاشی گیری سمیت دیگر کام اور مورتیوں کی کٹائی اور بناوٹ کے کام میں 200سے زائد مزدور مشغول ہیں اور اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیاناتھ کم ازکم دوبارلاؤلشکر لے کر رام مندرکی تعمیر کامعائنہ کرچکے ہیں۔ان سمیت متعدد سادھوؤں اور سنتوں کا مطالبہ ہے کہ مودی حکومت رام مندرکی تعمیر کے لیے سپریم کورٹ کے کیس کی جانب مت دیکھے، بلکہ پارلیمنٹ ہاؤس میں ’’رام مندر تعمیرکاقانون‘‘ پاس کرائے تاکہ عدلیہ کوایک طرف کرکے رام مندر کی تعمیرکاکام جلدمکمل کرایا جائے اور بھارت کوہندواسٹیٹ ڈکلیئر کرایاجائے۔
قارئین کرام !یہ ہیں دہشت گردمودی اور انتہا پسندہندوؤں کے گھناؤنے عزائم جس کاعالم اسلام خصوصاً پاکستانی حکومت کونوٹس لیناچاہئے۔ اگر بھارتی حکومت پاکستان میں ہندولڑکیوں کے قبول اسلام کو مذہب کی جبری تبدیلی کانام دے کر واویلا مچاسکتی ہے توپاکستان بھارت میں اقلیتی مسلمانوں اوران کی یادگاروں کے تحفظ کی بات کیوں نہیں کرسکتا۔
قوم اپنے وزیراعظم عمران خان سے جوقومی وملی حمیت اورغیرت اسلامی کے جذبے سے لبریز ہیں،یہی امیدرکھتی ہے کہ وہ بھارت کے بڑھتے ہوئے اسلام دشمن اقدامات کا بروقت نوٹس لیں گے۔
اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزرجائے اور بابری مسجد کی شہادت کے بعداس کی جگہ پررام مندرکی تعمیر کادکھ بھی مسلمانوں کو سہنا پڑے۔ یہ کام کوئی مشکل بھی نہیں۔پہلی حکومتیں اپنے ذاتی مفاد کے لیے مسلمانوں کے کسی مسئلے پربات کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتی تھیں،عمران حکومت نے گستاخانہ خاکوں کے خلاف سرکاری سطح پر بھرپور احتجاج کیا توہالینڈ گستاخانہ خاکوں کی نمائش روکنے پرتیارہوگیا۔
ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کی قربانیوں کامذاق اڑایا گیا تو عمران خان کے جواب نے امریکہ کو صفائیاں پیش کرنے پرمجبور کر دیا۔ پھرآخر دنیاکی ایک ساتویں بڑی ایٹمی میزائل طاقت اورتجربہ کارفوج کے ہوتے ہوئے مودی جیسے چوہے کی کیامجال کہ وہ اپنے اسلام دشمن اقدامات سے بازنہ آئے۔بس تھوڑی سی جرأت رندانہ کی ضرورت ہے۔
لوگ کہتے ہیں،پیسہ پھینک،تماشہ دیکھ‘‘۔ہم کہتے ہیں،ذرا جذبہۂ ایمان دکھائیں اوراللہ کی مدد دیکھیں۔ دنیاکیسے اسلام دشمنی سے باز نہیں آتی۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین