عروج کو زوال
سیانے کہتے ہیں کہ ہر عروج کو زوال ہے اور ہر زوال کو عروج ہے۔ اسی پر دنیا قائم ہے۔ اس دنیا کو اپنے مقررہ وقت تک قائم رکھنے کے لئے قدرت کا ایک الگ نظام قائم ہے۔ اس نظام کو نیچرل بیلنس کہتے ہیں۔
مثال کے طور پر کسی جنگل میں ہرنوں کی تعداد زیادہ ہو جائے تو شیر ان کا شکار کرکے ان کو ختم کر دیتے ہیں۔ یوں ہرن تعداد میں کم ہو جاتے ہیں۔ شیروں کو شکار نہیں ملتا۔ وہ بھوک سے مرنے لگتے ہیں۔
شیروں کی تعداد کم ہو جاتی ہے اور ہرن پھر زیادہ ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ قدرتی توازن کا نظام ہے۔ اگریہ نظام نہ ہوتا تو آج دنیا ختم ہو چکی ہوتی۔ کہتے ہیں ایسا عمل فطرت کی بنائی ہر شے پر لاگو ہوتا ہے۔ انسان بھی جب ضرورت سے زیادہ تعداد یا علم میں بڑھنے لگ جاتے ہیں تو جنگیں ہوتی ہیں، قحط آتے ہیں، قدرتی آفات آتی ہیں اور انسان اپنے علم سمیت فنا ہو جاتے ہیں۔ ہٹلر، سٹالن سمیت ہر ظالم و جابر شاید قدرت کے اس عمل کو پورا کرنے کے لئے پیدا کیا گیا۔ منگول خاندان کا بانی چنگیز خان عرف تیمو جن اپنے تمام جاہ و جلال کے ساتھ 1227ء میں مر گیا۔
اس کی موت کے بعد اس کی سلطنت پانچ حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ منگولوں نے اپنا عروج جاری رکھا۔ 1229ء میں منگولوں نے پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے 3محاذوں پر عظیم جنگوں کا آغاز کیا۔ ان سب محاذوں پر منگولوں کو عظیم کامیابی حاصل ہوئی۔
1251ء میں منگو خان کو منگولوں کا سردار چنا گیا۔ اس نے سب سے پہلے اپنے بھائی قبلائی خان کو جنوبی چین اور اپنے جانباز سپاہی ہلاکو خان کو بغداد فتح کرنے کے لئے روانہ کیا۔ یہاں سے بغداد کی تباہی کی کہانی شروع ہوتی ہے، جسے مورخ Siege of Baghdad کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
تاریخ کی کتابوں میں بہت سی حکایات اس تباہی کا رونا روتی نظر آتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بغداد اس وقت اسلام کا قلعہ ہوا کرتا تھا اور پوری دنیا کا علم بغداد کی لائبریریوں میں قید تھا، جہاں فلسفی موت کی حقیقت جان چکے تھے، وہیں وہ ستاروں پر دنیا بسانے کے قریب تھے۔ آبِ حیات سے لے کر نجانے کیسی کیسی حکایات اس علم کی بربادی کا رونا روتی نظر آتی ہیں۔ یوں 1258ء میں بغداد کو ہلاکو خان کی فوجوں نے گھیر لیا، یہ سب اس وقت کی غیر اسلامی قوتوں کی سازش کا حصہ تھا جو اسلام اور امت دونوں کو فنا کرنا چاہتی تھیں۔ ایک ہفتہ ہلاکو خان نے جو ظلم و تشدد اس شہر پر ڈھایا،اس کی ہولناکیاں بیان کرنے کے لئے مورخوں کے پاس آج تک الفاظ موجود نہیں ہیں۔ دس لاکھ کے قریب زندہ انسانوں کو ذبح کر دیا گیا۔ بغداد کے حاکم اور عباسی خاندان کے فرمانروا کو ایک کارپٹ میں لپیٹ کر گھوڑوں کے ساتھ ان کے جسم باندھ کر چاروں طرف گھوڑے دوڑا کر چیر ڈالا۔
تمام مساجد تباہ کر دی گئیں، لائبریریوں کو آگ لگا دی گئی، مگر علم اتنا تھا کہ آگ کم پڑ گئی تو دریا میں ان کتابوں کو بہا دیا گیا۔ کہتے ہیں دریائے دجلہ کے پانی کا رنگ ان کتابوں کی سیاہی سے کالا ہو گیا تھا۔ پانچ صدیوں میں بنائے گئے عباسی دور کے ڈیم تباہ کر دیئے گئے۔
عورتوں بچوں کے ساتھ جو ظلم کیا گیا وہ بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہلاکو خان کے اس ظلم نے دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر کو کھنڈرات میں بدل دیا۔ دریائے دجلہ میں وہ علم بہا دیا گیا جس کے حصول کے لئے بغداد میں ہزار سال بھی کم پڑ گئے ہوں گے۔
بغداد کی اس تباہی کے بارے میں دو مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ اگر اس وقت بغداد تباہی سے بچ جاتا تو اسلام اپنا عروج پا لیتا، پوری دنیا پر مسلمانوں کا راج ہوتا، مگر دوسری تھیوری اس سے بالکل مختلف ہے۔دوسری تھیوری فطرت کے قدرتی توازن کے نظام کو سامنے رکھتی ہے۔
ان کے نزدیک یہ زوال اُمت کو دوبارہ متحد کر کے جرات، بے خوفی اور بہادری کے ساتھ لازوال حیثیت سے زندہ کرنے کا واحد ذریعہ تھا۔ اس نظریے کے سب سے بڑے وکیل مولانا روم اور ابن خلدون ہیں ،جن کی کتابیں آج پورا یورپ اپنے کورس کے طور پر پڑھاتا ہے۔
ان کے مطابق منگولوں کی آمد عالم اسلام کے لئے رحمت اور نعمت تھی، بغداد جل گیا، مگر اس کی راکھ سے قاہرہ، تبریز، دلی، بخارہ، اصفہان جیسے علم و دانش کے کئی شہروں نے جنم لیا۔ اس راکھ نے مغلیہ دور کو جنم دیا، جنہوں نے برصغیر کو سونے کی چڑیا بنا دیا۔ خلافتِ عثمانیہ، امام غزالی ؒ سمیت یہ عروج بغداد کے اس زوال کا ثمر ثابت ہوا۔ مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ اتنی ترقی ، علم و دانش کے بعد بغداد بے حسی اور بے عملی کی طرف مائل ہو چکا تھا۔
عیش و عشرت عروج پر تھی۔ بے ایمانی، بددیانتی، منافقت، بے انصافی ان کا خاصہ بن چکی تھی۔ بغداد کا زوال قدرت کا ایک نیچرل بیلنس تھا، اگر وہ زوال نہ آتا تو شاید اس کے بعد امت مزید عروج نہ دیکھ پاتی۔
شائد اسلام کو اپنی حقیقی روح میں زندہ رکھنے کے لئے ہی قدرت نے منگولوں کو اس خطے میں بھیجا۔
آج کے دور کی ترقی، برق رفتاری اور اس میں بوسنیا، کشمیر، فلسطین، چیچنیا، پاکستان، افغانستان، شام ، عراق میں نیو ورلڈ آرڈر کے ایندھن بننے والے مسلمانوں کی آہوں کی گونج یہ کہتی سنائی دیتی ہے کہ قدرت آج پھر نیچرل بیلنس کے نظام پر امت میں توازن پیدا کر رہی ہے۔
اسلام کو قیامت تک اپنی حقیقی روح کے ساتھ قائم رہنا ہے۔ غیر مسلموں کا اتحاد، ان کی ترقی اور مسلم امہ کی بے راہ روی اور ربطِ ملت کی کمزوری کا شائد واحد علاج یہی تھا کہ یہود و ہنود، نصاریٰ ہمیں نیست و نابود کرنے کے لئے ہم پر چڑھ دوڑیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے بغداد پر ہلاکو خان نے چڑھائی کی تھی۔
ہم ہدایت پکڑیں، بطور امت زندہ ہوں اور اسلام تا قیامت اپنی اصل حالت میں محفوظ رہے۔سیانے صحیح کہتے ہیں کہ ہر عروج کو زوال ہے، اسی پر دنیا قائم ہے۔ ہمیں اب اس زوال کو دیکھ کر ہر گز مایوس نہیں ہونا، بس خدا سے اپنے گناہوں کی استغفار طلب کرنی ہے۔
خدا کو راضی کرنا ہے اور سیدھی راہ پر گامزن ہونا ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت، میاں نوازشریف کی سیاست میں آمد اور ان کی حکومتوں کا خاتمہ قدرت کا نیچرل بیلنس ہے ۔ اب عمران خان کی حکومت بھی قدرت کا نظام ہے۔اب پھر شائد قدرت عروج لا رہی ہے۔
ہمیں بطور امت اس وقت کے لئے اپنے قبلہ کو درست کرنا ہوگا اور عروج کے بعد بھی جہاں ہم نے پھر غلطی کر دی، فطرت بھی ہمیں معاف نہیں کرے گی اور یوں ہی قیادت تک قدرت کا نظام چلے گا۔ ہم کو بحیثیت مسلمان کبھی نہ کبھی دن میں رات میں اپنے ملک، جو خدا کا عطیہ ہے، اس میں مسلمان عاجز و مسکین زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کی بھلائی اور بہتری کا سوچنا ہو گا ورنہ قدرت تو نیچرل بیلنس کرنے میں دیر نہیں کرتی۔