پارلیمنٹ سپریم ادارہ : چیف جسٹس ، پاناما کیس کا فیصلہ کر کے سپریم کورٹ نے نئے پاکستان کی بنیاد رکھی ، قانون سازی کیلئے اقدامات جاری ، جلد 6قانون لا رہے ہیں : عمران خان

پارلیمنٹ سپریم ادارہ : چیف جسٹس ، پاناما کیس کا فیصلہ کر کے سپریم کورٹ نے نئے ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلام آباد (سٹاف رپورٹر ،مانیٹرنگ ڈیسک ،این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ آبادی کنٹرول کیلئے تشکیل گئی ٹاسک فورس کی تجاویز پر وزیر اعظم عملدر آمد کراسکتے ہیں ٗ سپریم کورٹ نے جو کردار ادا کرنا تھا اس کیلئے حصہ ڈال دیا، کسی بھی ترقی یافتہ ملک یا معاشرے کے لیے تعلیم، قانون کی بالادستی، ایمانداری اور مخلص حکومت ضروری ہے ٗہم قانون سازی نہیں کرسکتے یہ کام پارلیمنٹ کا ہے ٗ ہمیشہ کہا آئین کے بعد اگر کوئی سپریم ادارہ ہے تو وہ پارلیمنٹ ہے، امید ہے نیک نیتی سے چند سالوں میں خوابوں کی تعبیر پالیں گے ٗ40 سالوں میں کوئی ڈیم نہیں بنایا گیا اس لیے آنے والے دنوں میں پانی کی کمی کے تباہ کن اثرات ہوں گے۔ بدھ کو بڑھتی ہوئی آبادی پر فوری توجہ کے موضوع پر منعقدہ سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس میں ثاقب نثار نے کہا کہ آبادی پر کنٹرول کیلئے ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے جس نے بہت اچھی تجاویز پیش کیں، عدلیہ کے پاس ان تجاویز پر عملدرآمد کا کوئی میکنزم نہیں، اگر کوئی اس پر عملدرآمد کراسکتا ہے تو وہ وزیراعظم ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جو کردار ادا کرنا تھا اس کے لیے حصہ ڈال دیا اور ایگزیکٹو کی ذمہ داری ہے، کسی بھی ترقی یافتہ ملک یا معاشرے کے لیے تعلیم، قانون کی بالادستی، ایمانداری اور مخلص حکومت ضروری ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہر کام کرنے کیلئے ٹول ہوتے ہیں، ہمارا کنٹریکٹ لاء 1872 کا قانون ہے، اس ٹول کو لے کر ہم 2018 میں اپلائی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم قانون سازی نہیں کرسکتے یہ کام پارلیمنٹ کا ہے اور پارلیمنٹ نے ہمیں ٹول دینے ہیں، اتنا وقت گزر چکا اور پرانے قوانین کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ نہیں کیا گیا، آپ ہمیں ٹولز دے دیں، آج کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہمیشہ کہا آئین کے بعد اگر کوئی سپریم ادارہ ہے تو وہ پارلیمنٹ ہے، امید ہے نیک نیتی سے چند سالوں میں خوابوں کی تعبیر پالیں گے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ وسائل محدود اور ضرورت لامحدود ہیں، گزشتہ 60 سال میں بڑھتی ہوئی آبادی کنٹرول کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی، بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ہمارے وسائل مسلسل دباؤ کا شکار رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آبادی ایسے ہی بڑھتی رہی تو 30سال بعد پاکستان کی آبادی45کروڑ ہوگی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اب ہمیں آبادی پر قابو پانے کیلئے آگاہی پھیلانی ہے اور اس حوالے سے عملی کام کرنے کا وقت ہے کیونکہ پاکستان کی بقا کیلئے ہم نے آبادی کو کنٹرول کرنا ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پانی زندگی ہے ہر سال 7 ارب گیلن پانی زمین سے نکالا جاتا ہے، 4 لیٹر پانی میں ایک لیٹر پانی قابل استعمال ہوتا ہے اور باقی تین چوتھائی حصہ ضائع کردیا جاتا ہے جبکہ گزشتہ 40 سالوں میں کوئی ڈیم نہیں بنایا گیا اس لیے آنے والے دنوں میں پانی کی کمی کے تباہ کن اثرات ہوں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم اور پارلیمنٹ کی معاونت بہت ضرورت ہے اب وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کا بائیکاٹ کرنا چھوڑ دیا جائے، آج ملک میں بچہ ایک لاکھ سے زائد کا مقروض پیدا ہوتا ہے، ہم آنے والی نسلوں کو کچھ دے کر جانا چاہتے ہیں جبکہ وزیراعظم مدینہ کی ریاست قائم کرنے کی بات کرتے ہیں اس خواب اور تصور میں عدلیہ شانہ بشانہ ہے اور نیک نیتی سے وزیراعظم کے اس خواب کی تعبیر کو پانے کی کوشش کریں گے،عدلیہ کو وہ ٹولز دئیے جائیں کہ وہ آج کے تقاضوں کو پورا کرسکے،عدلیہ اب اس بوجھ کو اٹھانے کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ برسہابرس کیس چلتا رہے۔انہوں نے ماضی کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ پہلے شہروں میں بھی سبزہ ہوا کرتا تھالیکن اب لاہور جیسے بڑے شہر تعمیرات سے بھر چکے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی سے وسائل شدید دباؤ کا شکار ہورہے ہیں، اور وسائل ویسے ہی تیزی سے کم ہورہے ہیں۔پاکستان میں عدالتی نظام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نظام میں گزشتہ 4 سے 5 سال کا بوجھ نہیں ہے بلکہ اس پر پاکستان بننے سے نہیں بلکہ صدیوں سے یہ بوجھ ہے۔انہوں نے وزیر اعظم پاکستان سے درخواست کی کہ پاکستان کا پرانا عدالتی نظام اور قوانین میں تبدیلی کروائیں اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ کو بہترین عدالتی نظام فراہم کیا جائے گا۔بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے اپنے خطاب کے دوران بتایا کہ 70 کی دہائی میں پاکستان کے پاس بہبود آبادی اور افزائش آبادی سے متعلق دنیا کا سب سے بہترین پروگرام تھا، اور اس سیکٹر میں پاکستان میں فقدان نظر آتا ہے۔سمپوزیم میں سپریم کورٹ کے جسٹسز، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزراء دیگر ممالک کے سفارتکار اور علماء بھی شریک ہوئے۔
چیف جسٹس

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر ،مانیٹرنگ ڈیسک ، نیوز ایجنسیاں)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی لازم و ملزوم ہیں ٗچیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے پاناما لیکس کا فیصلہ کرکے نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی تھی ٗانتخابات ہوتے تھے قانون پر عملدر آمد نہیں ہوتا تھا ٗ کسی نے نہیں سوچا تھا وزیراعظم بھی قانون کے تابع ہوگا ٗ پاکستان میں ادارے خود مختار ہورہے ہیں ٗ قانون سازی کیلئے بھی اقدامات کررہے ہیں، 6 نئے قانون اسمبلی میں لے کر آرہے ہیں ٗآنے والے دنوں میں قرضوں سے نکل جائیں گے ٗپاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ قومی مسئلہ ہے جس میں پوری قیادت، سول سوسائٹی اور علماء کو بھی سامنے آنا پڑے گا۔سپریم کورٹ میں پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی پر فوری توجہ کے موضوع پر ایک روزہ سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ ہماری حکومت نے ابتدائی 100 روز میں ہی نئے قوانین کی تیار کرلی تھی۔انہوں نے کہاکہ سول اور کرمنل پروسیجر کورٹ میں ترامیم متوقع ہے۔وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ میں پہلا وزیر اعظم ہوں جسے چیف جسٹس نے دعوت دی ہے ٗ میں شکر گزار ہوں کہ میں عدالت میں پیش نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ ریاست مدینہ کی کامیابی قانون کی حکمرانی ہی تھی اور وہی معاشرہ ترقی کرتا ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وہ معاشرہ ترقی کرتا ہے ٗجہاں قانون کی پاسداری ہو، کیوں کہ کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی لازم و ملزوم ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے پاناما لیکس کا فیصلہ کرکے نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی تھی۔وزیراعظم نے کہا کہ ماضی کی جمہوری حکومتیں صرف 5 سال کا سوچتی تھیں کہ اگلا الیکشن کیسے جیتیں، ان کے دور میں تمام حکومتی ادارے مفلوج تھے، ان کی چھوٹی سوچ کی وجہ سے ہم پانی جیسے سنگین مسئلے میں پھنس گئے، یہاں انتخابات ہوتے تھے قانون پر عملدرآمد نہیں ہوتا تھا، کسی نے نہیں سوچا تھا کہ وزیرِاعظم بھی قانون کے تابع ہوگا، میرے کانوں نے یہ بھی سنا کہ اچھا ہوا بنگلا دیش الگ ہوگیا وہ بوجھ تھا، آج وہی بنگلا دیش آگے کی طرف جارہا ہے۔عمران خان نے کہا کہ جمہوریت کا مقصد حکمرانوں کو قانون کے نیچے لانا ہے، سی ڈی اے میرے نیچے ہے پھر بھی آپ کو بتاتا ہے عمران خان نے یہاں غلطی کی، میرے ماتحت ادارہ سی ڈی اے آج عدالت کو بنی گالا کی صورتحال بتارہا ہے، ایسا پہلے نہیں تھا، جن بوتل سے نکل چکا ہے،اب کوئی نہیں سوچے گا کہ وہ قانون سے بالاتر ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان میں ادارے خود مختار ہو رہے ہیں، دنیا پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہے، ہم بڑے بڑے قبضہ گروپوں پر ہاتھ ڈال رہے ہیں، قانون سازی کے لیے بھی اقدامات کررہے ہیں اس سلسلے میں 6 نئے قانون اسمبلی میں لے کر آرہے ہیں، آنے والے دنوں میں قرضوں سے نکل جائیں گے۔انہوں نے کہاکہ پوری کوشش کر رہے ہیں کہ قانون سازی کے ذریعے پرانا نظام عدل تبدیل کریں۔وزیراعظم نے کہا کہ برطانیہ میں میگنا کارٹا بادشاہ کو قانون کے نیچے لانا چاہتا تھا ٗ بادشاہ کو قانون کے نیچے لانیکی سوچ سے برطانیہ میں قانون کی جدوجہد شروع ہوئی۔وزیراعظم نے کہا جب منگلا اور تربیلا ڈیم بنے تب پاکستان میں آگے کا سوچا جاتا تھا۔پاکستانی میں بڑھتی ہوئی آبادی سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آبی وسائل کی بھی کمی ہورہی، جنگلات کا صفایا کردیا گیا ہے، اور پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ عالمی ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں 7ویں نمبر پر ہے۔وزیرِ اعظم نے کہا کہ شہروں کی وسعت بھی افزائش آبادی کی شرح پر اثر انداز ہورہی ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ حکومتی ترجیحات میں بڑھتی ہوئی آبادی سے متعلق مسئلہ بہت پیچھے تھا تاہم چیف جسٹس کا اسے مسئلے کو آگے لانے پر شکریہ ادا کرتے ہیں ٗ حکومت نے اس معاملے میں ٹاسک فورس بھی تشکیل دے دی ہیں۔وزیرِ اعظم نے کہا کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ قومی مسئلہ ہے جس میں پوری قیادت، سول سوسائٹی اور علماء کو بھی سامنے آنا پڑے گا۔اپنے خطاب کے آخر میں وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے سے متعلق مہم کا آغاز کرنے پر چیف جسٹس کا شکریہ بھی ادا کیا۔

مزید :

صفحہ اول -