ملک کی معاشی سمت کا تعین ہو گیا
بزنس ایڈیشن
حامد ولید
حکومت کے 100دن
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے کمال ثابت قدمی سے اقتدار کے پہلے 100دنوں میں ملک بھر کے مایہ ناز معاشی ماہرین کی مشاورت سے معاشی سمت کا تعین کرلیا ہے ۔ گزشتہ اتوار وزیراعظم عمران خان نے اقتصادی مشاورتی کونسل اجلاس میں غربت مٹاوحکمت عملی کی منظوری دی جس پر عملدرآمدسے ملک میں پائیدار ترقی کی بنیاد ڈالی جا سکے گی اورٹیکس اصلاحات اور برآمدات میں اضافہ کو یقینی بنایاجاسکے گا۔اجلاس میں وزیرخزانہ اسدعمر،مخدوم خسرو بختیار‘ڈاکٹرعشرت حسین‘ طارق باجوہ‘عارف احمد خان اوردیگر معاشی ماہرین نے شرکت کی ۔
اجلاس میں معیشت کی بہتری کے لیے مڈٹرم ڈھانچہ جاتی فریم ورک اورکمزور طبقے کے لیے سوشل پروٹیکشن فریم ورک کی بھی منظوری دی گئی۔سوشل پروٹیکشن فریم ورک میں غربت ‘ صحت ‘تعلیم سے متعلق چیلنجز سے نمٹنے کے اقدامات شامل ہیں۔اخباری اطلاعات کے مطابق اجلاس میں غربت مٹاؤ پروگرام کے تحت عالمی بینک سے 42 ملین ڈالر (تقریباً5ارب 65 کروڑ روپے)قرض لینے کی منظوری بھی دی گئی۔ اس کے علاوہ اجلاس میں نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے لیے 5 ارب روپے فنڈزکی منظوری بھی دی گئی۔اجلاس میں وزیراعظم کو ملک کی معاشی و اقتصادی صورتحال اور 100 روزہ پلان کے تحت اہداف پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اقتصادی مشاورتی کونسل نے نوجوانوں کو کارآمد شہری بنانے کے لیے جامع پلاننگ کا فریم ورک بنانے کا فیصلہ کیا جس کے تحت نوکریوں کی فراہمی اور برآمدات بڑھانے کی حکمت عملی جلد تیار کی جائے گی۔ وزیر اعظم میڈیاآفس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اجلاس میں وزیراعظم نے معیشت کیلئے درمیانی مدت کے ڈھانچہ جاتی اصلاحات فریم ورک کے ضمن میں پالیسی سفارشات کی منظوری بھی دی۔اجلاس کے شرکاء کوپالیسی سفارشات کے مطابق ترقی کیلئے مالیاتی اقدامات، بر آمدات میں اضافہ، چھوٹے اوردرمیانے درجہ کے کاروبارکو مضبوط بنانے، ٹیکس اصلاحات، ملازمتوں کے مواقع کی فراہمی ، اہم پالیسی اقدامات کے اثرات اور اقتصادی مشاورتی کونسل کی تجاویز کی روشنی میں پاکستان میں سماجی تحفظ کی ترجیحات پر بریفنگ دی گئی۔پالیسی سفارشات کو حتمی شکل دی گئی ہے تاکہ استعداد سے کم استفادہ کی حامل شعبوں بشمول زراعت، ہاوسنگ، ترغیبات کے تناظر میں چھوٹے اوردرمیانہ درجے کے کاروبار، برآمدات اور افرادی قوت کی بہتری پرمبنی بڑھوتری پر انحصار، برآمدات کوکم کرنے والے اقدامات کی واپسی، نظام کی آٹومیشن کی بہتری اورٹیکنالوجی کا استعمال، تجارتی معاہدوں اوراقدامات میں شفافیت، درآمد کنندگان کوسہولیات کی فراہمی، ہنر کی بہتری کے ذریعے روزگارکے نئے مواقع کی فراہمی، تجارت اورسرمایہ کاری کیلئے بہتر ماحول فراہم اورکاروبارآسان بنانے ، پیداواریت میں اضافہ اورٹیکنالوجی میں جدت کے ذریعے بڑھوتری کا عمل تیزتر کیا جاسکے۔بیان میں کہا گیاہے کہ ان پالیسیوں کو حتمی شکل دینے کا مقصد پائیدار، جامع، روزگارکے مواقع کا حامل اوربرآمدات پرمبنی اقتصادی ترقیاتی حکمت عملی کیلئے بنیاد کا قیام ہے جو موجودہ حکومت کے 100 روزہ پلان کا حصہ ہے۔
دوسری جانب رواں ماہ کے دوران عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں مجموعی طور پر 25فیصد کم ہونے کی وجہ سے بھی حکومت پر مہنگائی کے حوالے سے موجود پریشر کم ہوگیا ہے ۔ خاص طور پر آئی ایم ایف کی جانب سے قرضے کی فراہمی کے عوض ممکنہ مہنگائی کے طوفان کی خبروں کے بیچ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے نہ صرف عوام نے سکھ کا سانس لیا بکہ یہ توقع بھی باندھ لی ہے کہ پاکستان میں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اسی نسبت سے کمی لائی جائے گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق یکم دسمبر سے پٹرول و ڈیزل کی قیمت میں کم سے کم پانچ سے سات روپے تک کمی کا قوی امکان ہے۔ اس سے قبل یکم نومبر کو جس وقت وطنِ عزیز میں پٹرول پانچ روپے اور ڈیزل کی قیمت میں 6.37روپے فی لیٹر کا اضافہ کرتے ہوئے دونوں کی قیمتیں بالترتیب بڑھ کر 97.83اور 112.94روپے فی لیٹر کردی گئی تھیں اسی روز عالمی منڈی میں 44سینٹ کمی کے بعد خام تیل کی قیمت 75.47ڈالر فی بیرل ہو گئی تھی۔ دوسری مرتبہ مزید کمی کے بعد عالمی مارکیٹ میں قیمتیں مجموعی طور پر 25فیصد تک گر گئیں۔
واضح رہے کہ عالمی سطح پر قیمتوں میں استحکام کے باوجود گزشتہ سال ستمبر سے رواں سال نومبر تک اندرونِ ملک پٹرول کی قیمت 69.50روپے سے بڑھ کر 97.83روپے فی لیٹر پر پہنچ گئی تھی اوراس کے جو اثرات مہنگائی در مہنگائی کی صورت میں غریب عوام اور تنخواہ دار طبقہ پر پڑے اس کا اندازہ اس عرصہ میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہونے والے 40سے 50فیصد اضافہ سے لگایا جا سکتا ہے جبکہ عالمی مارکیٹ میں ہونے والی قیمتوں میں کمی بیشی کے اثرات بیشتر ممالک میں اسی نسبت سے کمی بیشی کی صورت میں مرتب ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک اور خوش آئندہ بات یہ بھی ہے کہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں کم ہونے سے پاکستان کا درآمدی بل کم ہو گا جس سے توازنِ ادائیگی میں بہتری آئے گی، تاہم جس طرح حکومت ماضی میں عالمی سطح پر ہونے والی قیمتوں کے اضافے سے اندرونِ ملک پٹرول کی قیمتیں بڑھاتی آئی ہے، اس کے بعد عوام کے دگرگوں معاشی حالات کا تقاضا ہے کہ پٹرول کی قیمتوں میں کم از کم 25فیصد کمی لائی جائے۔
یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے اس امر سے اصولی طور پر اتفاق کر لیا ہے کہ برآمدات بڑھانے‘ تجارت کو فروغ دینے اور درآمدات کم کرنے کی خاطر ایف بی آر کے اختیارات میں کمی کی جائے‘ تحریک انصاف کی حکومت اب مکمل طور پر اس بات پر قائل نظر آتی ہے کہ ایف بی آر میں پالیسی اور ٹیکس امور کو اس طور پر علیحدہ کیا جائے کہ مالیاتی پالیسی قومی معیشت کے دیگر امور نہ چلائے تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کے آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کے بعد مالیاتی اہداف کیسے حاصل ہونگے۔ وزیراعظم نے اس مینڈیٹ کے ساتھ کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ برآمدات بڑھانے کیلئے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داود کی تمام سفارشات منظور کر لی جائیں گی۔ اقتصادی مشاورتی کونسل کی ذیلی کمیٹی نے ایف بی آر کو ایسی رکاوٹ کے طور پر پایا ہے جو تجارت کوآسانیاں فراہم کرنے میں رکاوٹ ہے اور وزیراعظم نے اس امر سے اتفاق کیا ہے کہ جو کچھ وزارت تجارت تجویز کرے گی، اس پر بغیر کسی تاخیرکے عمل کیا جائیگا۔ اربوں روپوں کے
ٹیکس ریفنڈزکے معاملے پر اہلکار کا کہنا تھا کہ حکومت نے اسے بھی حل کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ اور اسٹیٹ بینک برآمدات کی بنیاد پر ایل سی کی وصولی کی تصدیق کے بعد پیسے جاری کردیگا۔ یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ 4کروڑ ڈالر کی رقم غربت کے خاتمے سے متعلق پروگرام کیلئے مختص کی جائیگی۔
وزیر اعظم عمران خان کی ہدایات پر قائم کئے گئے عارضی شیلٹر ز ہوم قائم کردیئے گئے ہیں جن میں پہلی رات138 افراد نے قیام کیا۔ قیام کرنے والوں کو صبح اوراور دوپہر کے وقت بہترین ناشتہ اورکھانا فراہم کیا گیا۔ عارضی شیلٹرز ہوم میں قیام کرنے والوں کی صبح کے ناشتے میں نان چنے اور چائے سے تواضع کی گئی جبکہ دوپہر کے کھانے میں بریانی اور چکن کڑاہی دی گئی۔ ضلعی انتظا میہ اور سوشل ویلفیئرز ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے انتظا ما ت کئے گئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر پانچ مسافر خانوں میں138افراد نے قیام کیا جن میں داتا دربار 40 ، ریلوے اسٹیشن44 ،بادامی باغ 20، ٹھوکر نیاز بیگ20 اور لاری اڈہ کے عارضی شیلٹر ہوم میں 14 لوگوں نے قیام کیا۔یہ حکومتی فیصلہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت صحیح معنوں میں ایک فلاحی ریاست کا کردار ادا کرنے کے لئے پر تول رہی ہے ۔ خاص طور پر وزیر اعظم عمران خان تو پاکستان کو مدینے کی ریاست سے اکثرو بیشتر تشبیہ دیتے رہتے ہیں اور شیلٹر ہومز کی صورت میں اس جانب پہلا قدم بھی اٹھالیا گیا ہے ۔
درج بالا اقدامات کے تناظر میں آئندہ پانچ برسوں میں حکومت کی معاشی سمت بڑی واضح نظر آتی ہے کہ وہ نہ صرف ملک کے اندر برآمدات کو بڑھاوا دے کر زرمبادلہ میں اضافہ کرنا چاہتی ہے بلکہ نوکریوں کا جال بھی پھیلانا چاہتی ہے ۔ اسی لئے حکومت نے پانچ زیرو ریٹڈ ایکسپورٹ صنعتوں کو بے شمار سہولتوں کا اعلان کردیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک سے غربت کے خاتمے کے لئے بھی حکومت کے جانب سے ٹھوس اقدامات کئے جا رہے ہیں اور ایسے میں حکومت کو عالمی منڈی میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں سے بے پناہ فائدہ ہوگا کیونکہ اسے ایسے اقدامات کرنے کا موقع ملے گا جس سے مختلف شعبوں کی پیداواری لاگت کو عوام تک منتقل کیا جا سکے ، خاص طور پر جب سعودی عرب، چین اور یوا ے ای کی جانب سے خاطرخواہ مالی مدد کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے اور سعودی عرب سے تو ایک ارب ڈالر سٹیٹ بینک آف پاکستان کو موصول بھی ہو چکے ہیں۔
تاہم حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اس محاذ پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی جانب سے آبادی پر قابو پانے کی نئی مہم کا حصہ بن جانا چاہئے کیونکہ پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں اور 40 فیصد غذائی قلت یا سوکھے کا شکار ہیں۔یہاں اسکول جانے والوں کے اوسط سال 8.6، بھارت میں 12.3، نیپال میں 12.2اور بنگلہ دیش میں 11.4سال ہیں۔ جبکہ صحت کے حوالے سے، پاکستان میں اوسط عمر 66.6سال، نیپال میں 70.6 سال، بنگلہ دیش میں 72.8سال
اور بھارت میں 68.6سال ہے۔ اسی طرح آبادی کی شرحِ افزائش 2.4 فیصد سالانہ، بنگلہ دیش اور نیپال میں 1.1 فیصد اور بھارت میں 1.2 فیصد ہے۔ دوسرے معنوں میں پاکستان خطے میں نہ صرف غریبی میں آگے ہے بلکہ افزائش آبادی میں بھی فہرست نظر آتا ہے۔
ہماری آبادی کا 64 فیصد 30 برس تک کے نوجوانوں اور بچوں پہ مشتمل ہے۔ اس موضوع پر یو۔این۔ڈی۔پی کی ایک رپورٹ کے مطابق اسکولوں میں موجودہ شرح داخلہ پہ 2076 تک ہی ہر بچہ اسکول جا پائے گا۔ اور اگر ہم نے 2030 تک ہر بچے کو اسکول بھیجنا ہے تو موجودہ شرح داخلہ کو چار گنا بڑھانا ہوگا۔ جس کیلئے ہمیں تعلیم پر موجودہ خرچ کو 2.2 فیصد سے بڑھا کر چھ فیصد کرنا ہوگا اور اس اضافے کے باوجود اچھی تعلیم کی پھر بھی یقین دہانی نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان پر نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق ایک حقیر اقلیت کو ہر طرح کی سہولتیں اور مراعات میسر ہیں، جبکہ عوام کے انبوہ کثیر کے مقدر میں سوائے بھوک و افلاس، جہالت، بیروزگاری، بیماری اور بے حالی کے کچھ بھی نہیں۔ اس تقسیم میں بھی وہ اضلاع ہیں جہاں فراوانی ہی فراوانی جیسے کہ لاہور، کراچی، راولپنڈی، سیالکوٹ، جہلم، حیدرآباد، کوئٹہ، پشاور، ملتان اور فیصل آبادہیں۔جبکہ وہ دس اضلاع میں جہاں بھوک ننگ ناچ رہی ہے وہ تھرپارکر، کوٹلی، بدین، شکار پور، میرپور خاص، قلعہ عبداللہ، زیارت، جھل مگسی و دیگر اضلاع ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق انسانی پیمانوں پر پنجاب (سرائیکی علاقہ نہیں) سب سے آگے ہے جبکہ بلوچستان اورسندھ کے اندرونی علاقے سب سے پیچھے ہیں۔
سرخیاں
مڈٹرم ڈھانچہ جاتی فریم ورک اورکمزور طبقے کے لیے سوشل پروٹیکشن فریم ورک کی بھی منظوری دے دی گئی
تیل کی قیمتیں 25فیصد کم ہونے سے حکومت پر مہنگائی کے حوالے سے پریشر کم ہوگیا
برآمدات بڑھانے‘ تجارت کو فروغ دینے اور درآمدات کم کرنے کی خاطر ایف بی آر کے اختیارات میں کمی کی جارہی ہے
تصاویر
وزیرا عظم عمران خان
اقتصادی مشاورتی کونسل کی تصویر (آج کے اخبارات میں شائع ہوئی ہے)
عارضی شیلٹر ہومز میں ناشتہ کرتے لوگ
ٹیکسٹائل انڈسٹری
آبادی کا بے ہنگم پھیلاؤ