اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 89
سلطان بڑا عادل تھا اس کے عدل کی داستانیں دور دور تک مشہور تھیں۔ عدل کرتے ہوئے وہ بڑی سے بڑی شخصیت کا بھی لحاظ نہیں کرتا تھا۔
سلطان محمود غزنوی کی عدل گستری اور انصاف پسندی کی میں کئی مثالیں دے سکتاہوں جن کا میں نے ہندوستان میں آنے کے بعد خود مشاہدہ کیا۔ سلطان کو علمائے کرام اور صوفیائے عظام سے بھی بے حد عقیدت تھی۔ ایک بار سلطان محمود سلسلہ نقشبندیہ کے مشہور بزرگ شیخ ابوالحسن خرقانی سے ملنے خراسان گیا۔ میرے علاوہ حسین لونڈیاں بھی سلطان کے ساتھ تھیں۔ خراسان پہنچ کر سلطان نے یہ انداز اختیار کیا کہ خود تو اپنے غلام ایاز کا لباس پہنا اور ایاز کو اپنا شاہی لباس پہنادیا۔ اس سے پہلے شیخ سے وہ کبھی نہیں ملا تھا۔ درجن بھر کنیزون کو ہمراہ لے کر وہ شیخ ابوالحسن خرقانی کی خدمت میں پہنچا۔ ایاز نے بہ لباس سلطان غلام شیخ کو سلام عرض کیا تو انہوں نے سلام کا جواب تو دے دیا مگر سلطان کی طرف ملتفت ہوئے جس نے غلام ایاز کا لباس پہن رکھا تھا۔ اس پر ایاز یعنی اصل محمود نے شیخ صاحب سے کہا ’’اس کی کیا وجہ ہے کہ نہ تو آپ بادشاہ کی تعظیم کے لئے اٹھے اور نہ ہی اس کی طرف توجہ دی۔ کیا فقیر کے جال کی یہی کائنات ہے کہ بادشاہ کو اس طرح نظر انداز کیا جائے۔‘‘
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 88 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
شیخ خرقانی نے جواب دیا’’ہاں۔ جال تو یہی ہے مگر تیرا مشار الیہ اس جال کا گرفتار نہیں ہے۔ تو سامنے آکیونکہ تم تو خو داس جال کا سب سے بڑا شکار ہے۔‘‘
ہم سب سمجھ گئے کہ شیخ اصل حقیقت تک پہنچ گئے ہیں۔ سلطان بڑے ادب سے شیخ کے سامنے بیٹھ گئے اور کہا کہ مجھے کوئی نصیحت کیجئے۔
شیخ ابوالحسن خرقانیؒ نے فرمایا
’’تجھے چاہیے کہ چار چیزوں کو اختیار کرے۔ اول پرہیز گاری، دوئم نماز باجماعت، سوئم سخاوت، چہارم شفقت۔‘‘
سلطان محمود نے روپوں کا یک توڑا شیخ کی خدمت میں پیش کیا۔ شیخ نے جو کی روٹی سلطان کے سامنے رکھی اور اسے کھانے کے لئے کہا۔ سلطان نے دیکھا کہ روٹی بہت سخت ہے وہ نہ کٹتی تھی نہ گلے سے نیچے اترتی تھی۔ شیخ صاحب نے مسکراکر فرمایا
’’جس طرح یہ سوکھی روٹی تمہارے گلے سے نیچے نہیں اترتی اسی طرح تمہارا یہ روپوں سے بھرا توڑا ہمارے گلے سے نیچے نہیں اترتا۔ اس کو ہمارے سامنے سے اٹھاؤ۔ کیونکہ ہم اس کو بہت پہلے طلاق دے چکے ہیں۔‘‘
سلطان محمود نے شیخ صاحب سے کوئی چیز بطور نشانی مانگی۔ شیخ صاحب نے اپنا خرقہ دے کر رخصت کیا۔ جب محمود رخصت کے وقت اٹھا تو اس مرتبہ شیخ نے اس کی تعظیم کی اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ محمود نے پوچھا
’’آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ جب میں آپ کے پاس آیا تھا تو آپ نے میری بالکل پرواہ نہیں کی تھی لیکن اب آپ میرے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔‘‘
شیخ نے جواب دیا ’’جب تم میرے پاس آئے تھے اس وقت تم بادشاہی غرور میں تھے اور میرا امتحان کرنے کی غرض سے آئے تھے لیکن اب تم عاجزی و انکساری کے ساتھ واپس جارہے ہو۔‘‘
سلطان محمود نے ازراہ عقیدت شیخ کے ہاتھوں کو چوما اور ہم رخصت ہوئے۔(جاری ہے )