جرات و بہادری، طاہرالقادری
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے اور سپریم کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کو لے کر پنجاب حکومت کو غیر جانبدار جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے دیا ہے تاکہ شفاف تحقیقات کے ذریعے لواحقین کو مطمئین کرنے کی بجائے انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔
سترہ جون 2014 کو رونما ہونے والے اس اندوہناک سانحہ کے حوالے سے میڈیا پر مختلف چہ مگوئیاں ہوتی رہی ہیں کبھی کہا ڈیل ہوگئی کبھی کہا ڈاکٹر طاہرالقادری نے پیسے لے لئیے کبھی کہا کہ معاف کر دیا گیا ہے مگر یہ ساری باتیں باتیں ہی رہیں۔ڈاکٹر قادری تو دور کی بات ہے۔جابر حکمران تمام ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کرنے کے باوجود کسی ایک شہید کے لواحقین کو ٹس سے مس نہ کر سکے۔
کروڑوں کی آفرز دیں ،بیرون ملک سیٹلمنٹ کے لالچ دئیے مگر سب بے سود رہا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کی ہدایت پر جو مالی امداد ممکن ہو سکی جو پیکج دیا بس اسی پر اکتفا کیا گیا اور حکومت وقت کی ہر پیشکش کو ٹھکرا دیا گیا۔یہ تو ایک عام کارکن کی بات تھی ۔قیادت پر بھی شدید دباؤ تھا۔ مصالحت کے لئیے بڑے بڑے نام بیچ میں ڈالے گئے ۔کبھی بیرون ممالک سے پیغام آئے۔ کبھی وزیر مشیر منت سماجت کرتے نظر آئے مگر ڈاکٹر طاہرالقادری بھی جرات کردار کی طرح ڈٹ گئے جو انکی طبیعت کا خاصہ ہے جو کہ انہیں ہم عصروں سے ممتاز کرتا ہے۔ جب ڈاکٹر طاہرالقادری کے دلائل سے مطمئن ہو کر سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے غیر جانبدار جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے دیا ہے تو یہ ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ھے جو کہتے تھے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے ڈیل کر لی ہے اور شہداء کے لہو کا سودا کر لیا ہے۔
یوں تو پاکستان کی مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنان شہید و زخمی اور پابند سلاسل ہوتے رہے ہیں اور انکی جماعتیں اپنی سی کوشش کر کے مقدمات لڑتی رہی ہیں۔مگر کارکنان سے وفاداری کی جو مثال ڈاکٹر طاہرالقادری نے قائم کی ہے ماضی قریب میں اسکی مثال نہیں ملتی ہے۔ڈاکٹر طاہرالقادری خود عدالت میں پیش ہوتے رہے۔ شہداء کا مقدمہ لڑتے رہے ،انکی جماعت پاکستان عوامی تحریک کی اسٹریٹ پاور ایک دنیا مانتی ہے۔احتجاج کا ہر جائز طریقہ اختیار کیا۔ حکومت وقت کو ناکوں چنے چبوا دئیے مگر کسی بھی موقع پر قانون ہاتھ میں نہیں لیا تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا۔قانونی جنگ جو کہ طویل تھی مسلسل لڑتے رہے اور آج اللہ نے اتنی کامیابی ضرور دی ہے کہ پہلے مرحلے کے طور پر غیر جانبدار جے آئی ٹی کی تشکیل کی امید ہو چلی ہیں۔ابھی بہت سے دشوار مرحلے باقی ہیں ، کیا ہوگا کیا نہیں ہوگا کسے سزا ہوگی کون بری ہوگا ؟؟؟یہ سب وقت آنے پر منکشف ہوتا رہے گا۔مگر اس فیصلہ نے دلوں میں ایک یقین کی مہر ثبت کردی ہے۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کاذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔