کیا پنجاب میں صرف بیورو کریسی کو تبدیل کرنے وسیم اکرم پلس ڈلیور کر سکیں گے؟

کیا پنجاب میں صرف بیورو کریسی کو تبدیل کرنے وسیم اکرم پلس ڈلیور کر سکیں گے؟
 کیا پنجاب میں صرف بیورو کریسی کو تبدیل کرنے وسیم اکرم پلس ڈلیور کر سکیں گے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیر اعظم عمران خان گزشتہ ہفتے کے روز جب لاہور آئے تو انکے دورے سے قبل ہی وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی خواہش پر پنجاب کے اہم عہدوں پر انتظامی تبدیلیاں کردی گئیں تھیں اور پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے یہ تبدیلیاں کوئی پہلی مرتبہ نہیں کی گئیں بلکہ 5ویں مرتبہ آئی جی پنجاب، تیسری مرتبہ چیف سیکرٹری اورچوتھی مرتبہ وزیر اطلاعات کی تعیناتی کی گئی ہے اور اتنی بھاری بھرکم تبدیلیوں کے بعد ایک مرتبہ پھر وسیم اکرم پلس کو اپنی کارکردگی ثابت کرنے کا موقع دیا گیاہے ان اہم تبدیلیوں کے بعد پی ٹی آئی کے اپنے اندرونی حلقوں کا دبے لفظوں میں کہنا ہے کہ جب تک وزیر اعظم پاکستان عمران خان پنجاب کے کپتان یعنی عثمان بزدار کو تبدیل نہیں کریں گے تو تب تک ان انتظامی تبدیلیوں کا کوئی بھی رزلٹ نہیں آئے گا کیونکہ اب تک کی وزیر اعلی کی کارکردگی سے خود پی ٹی آئی کے عہدیداروں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ چونکہ وزیر اعلی پنجاب کو کوئی حکومتی تجربہ نہیں ہے اور پہلی ہی باری میں ان کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیر اعلی لگادیا گیا ہے یہ منصب ان کے نہ تجربہ کاری کی وجہ سے ان سے اچھی طرح سے دیکھنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔

دوسری جانب آئی جی پنجاب کی 5ویں مرتبہ اور چیف سیکرٹری پنجاب کی تیسری مرتبہ تبدیلی کے بعد بیوروکریسی کے کچھ حلقوں نے بھی دبے لفظوں میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ کچھ سابق افسران نے تویہاں تک کہہ دیا ہے کہ چیف سیکرٹری یا آئی جی پنجاب کی تبدیلی کی نہیں بلکہ صوبہ پنجاب کے چیف ایگزیکٹو جس کو وزیر اعلی پنجاب کہا جاتا ہے اس کی تبدیلی کی ضرورت ہے اور اس منصب پر کسی ایسے فرد کی تعیناتی کی ضرورت ہے جو کہ اس اہم منصب کو اہم طریقے سے نھبانے کا ہنر جانتا ہو۔یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بیوروکریسی کا موقف ہے کے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ماضی کے وزیر اعلی میاں محمد شہباز شریف کے مقابلے میں ایک نہائت ہی کمزور وزیر اعلیٰ ثابت ہورہے ہیں اور اسکی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ایم پی ایز اور وزراء کی ہر تجویز کو آنکھ بند کرکے مان لیتے ہیں جس کی وجہ محکمہ پولیس اور بیوروکریسی میں بار بار تقرر و تبادلے ہو رہے ہیں اور یہی طریقہ کار سسٹم کے چلنے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔

اسی طرح سے اگر پنجاب کے وزیر اطلاعات کی بھی بار بار تبدیلی کی بات کی جائے تو یہ حقیقت ہے کہ صمصام بخاری اور میاں اسلم اقبال بطور وزیر اطلاعات پنجاب اچھا ڈلیور کر سکے ہیں لیکن شائد پی ٹی آئی کو اس اہم عہدے کے لئے ایک ایسے وزیر اطلاعات کی ضروررت ہے جو کہ دن رات اپوزیشن پر فیاض الحسن چوہان کی طرح تنقیدی نشتر برسائے فیاض الحسن چوہان کے رویے اور شعلہ بیانی سے خود پی ٹی آئی والے بھی پریشان رہتے ہیں کیونکہ وہ کوئی نہ کوئی ایسا بیان دیتے ہیں کہ جس کی وجہ سے پوری کی پوری پی ٹی آئی مشکلات میں پڑ جاتی ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ کیا وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو بار بار عثمان بزدار پر اعتماد کا اظہار کر نے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے اور ان کی جانب سے بار بار وزیر اعلی پنجاب پر اعتماد کااظہار اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شائد پی ٹی آئی کے اندر سے یہ آواز آ رہی ہے کہ عثمان بزدار کی جگہ کسی اور کو وزیر اعلی پنجاب بنا دیا جائے۔

مزید :

رائے -کالم -