”اوہ میں وکھیاں بھن دیاں گی“

دیکھیں اگر جمہوریت کے لئے سو،پچاس لوگ فوت بھی ہو جاتے ہیں تو کوئی گھاٹے کا سودا نہیں انہوں نے جی کے کون سا ہمالیہ سر کر لینی ہے۔اس لئے کووڈ کی پروا کرنے کی ضرورت نہیں اپوزیشن کو گج وج کے رولے رپّے کے ساتھ لاہور میں جلسہ کرنا چاہیے۔اللہ سلامت رکھے ہمارے آقاؤں کو،یہ کیڑے مکوڑے تو ویسے ہی فِل اِن دی بلینک ہوتے ہیں۔مجھے آج پنجابی فلموں کی ناکامی کی اصل وجہ سمجھ میں آئی بھیا ان سے اچھا تو ہمارے پیارے سیاستدان ڈائیلاگ بول دیتے ہیں۔اگر ان کے بیانات کے بعد ان کے نام ہٹا دیں تو آپ کہہ نہیں سکتے یہ ڈائیلاگ مولا جٹ کا ہے یاہمارے کپتان کا،یا نوری نت بو ل رہا ہے یا شاہد خاقان۔اب تو ہماری فردوس آپا گھسن مار کے چھ،سات ٹائلیں ایویں توڑ دیتی ہیں۔اپوزیشن سمجھ لے رب ان کے نیڑے ہے یا نہیں گھسن ضرور نیڑے ہے۔آپا فردوس کا اگلا بیان یہ بھی آسکتا ہے کہ ”نواں آیا ایں اوئے ثناء اللہ رانیا میں وکھیاں بھن دیاں گی“۔افسوس صد افسوس ہماری ساری عاجزی،شرافت”ہارڈ ٹاک“میں اسحاق ڈار کی صورت میں نظر آتی ہے ورنہ ہم سارے اپنے گھر کیشیر ہیں،بلی تو بس ہم انگریزوں کے سامنے بنتے ہیں۔
لیگی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وہ مینار پاکستان میں خادم رضوی (مرحوم) کے جنازے سے بڑا اجتماع کر کے دکھائیں گے۔بھیا جمہوریت کا جنازہ نکلنا ہے کوئی مذاق تو نہیں۔کارکنوں کی زندگیاں تو ویسے بھی کھیڈ تماشہ ہیں۔قصور میں بد قسمت باپ ابراہیم نے بھوک اور غربت کے ہاتھوں اپنے پانچ بچوں کو نہر میں پھینک دیا۔اس قدم نے نیا پاکستان کا خوبصورت چہرہ ایک بار پھر سوہنے مکھڑے کو مزید چن ورگا کر دیا۔معیشت واقعی ترقی کر رہی ہے۔پچھلے کالم میں ایک خاتون کی تین بچوں سمیت خود کشی کا ذکر تھا اس بار سکور پانچ بچوں تک پہنچ گیا۔سنتا سنگھ ہوٹل سے چیک آؤٹ کر کے نکلا تو ویٹر کو پچاس روپے دیکر کہا کہ میری صحت کی دعا کرنا،ویٹر بولا پچھلی بار آپ نے سو روپے دیئے تھے،سنتا سنگھ بولا کیونکہ ہن میری صحت پہلاں تو چنگی اے۔اللہ کا شکر قوم کے غریبوں کی زندگی بتدریج رمکے رمکے بہتر ہو رہی ہے۔میں نے سنا تھا کہ بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھلتی،لیکن یہاں تو مختیارا وڑ جانی دا جتنا بھوکا ہو رہا ہے اتنا ہی ادب و آداب میں ڈھل رہا ہے۔جمہوریت کا عالمی چیمپئن کپتان ہو یا جمہوریت کی شہزادی اس کے چہرے ببو گوشے کی طرح روز کھلتے جاتے ہیں مجال ہے کہ بڑھتی عمر کی پرچھائیں ایک چھرہیٹ چہرے پر نظر آئے۔ایدھر ہم بھیک منگے مخولئے ٹائپ ہیں۔ بچپن سے براہ راست بڑھاپے کا انہے واہ سفر کرتے ہیں اس لئے میرے چن دے
ٹوٹے ان دلوں کے کھوٹو ں کے ہاتھوں خوب ماموں بنو کیونکہ تمھارے ڈی این اے میں صرف غلامی ہے پتہ نہیں کون سا بے شرم نشہ کرتے ہو کہ سب سے بڑے خلوص سے وفا کرتے ہو۔
پوری دنیا اس وقت کورونا کے خلاف ویکسین بنا رہی ہے تاکہ لوگوں کی زندگیا بچ سکیں اور ہم جلسے،جلوس،ریلیاں،سیمینار کر رہے ہیں تاکہ کورونا کی ٹارگٹ کلنگ کا شکار صرف بڑے بڑے نام نہ ہوں عوام بھی حصہ ڈالیں۔پاکستان میں کروناویکسین سب سے پہلے سیاستدانوں پر استعمال کرنا چاہیے اگر وہ بچ گئے تو سیاست بچ جائے گی اور اگر نہیں بچے تو کم ازکم ملک بچ جائے گا۔ورنہ قوم تو ہے ہی ہر وقت اپنی آنکھوں میں ان دیوتاؤں کو بساکے ”آندا تیرے لئی ریشمی رومال،تےء اتے تیرا ناں لکھیا وے میں بڑیاں چاواں نال“گانے والی۔حیرت ہے 1947 ء سے آج تک اس کی چیکاں نکل گئیں چاہ نیں نکلے۔سنتا سنگھ سے کسی نے پوچھا کہ اگر آپ کو کوئی تکلیف پہنچائے تو کیا اس کو معاف کر دو گے،وہ بولا معاف تو اللہ نے کرنا ہے ”میں تے اُہنوں اُتے بھیجاں گا“۔سنتا سنگھ گھٹیا سوچ رکھتا ہے ہم سے سیکھے ہم خود کو تکلیف پہنچانے والوں کو ایوان اقتدار تک پہنچاتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن ٹھیک کہتے ہیں کہ معیشت تباہ ہو چکی ہے،خیر نال باقی کم مولانا خود پورا کر دیں گے۔عمران خان بھی ضدی پڑ گئے ہیں،پکڑاتے مولانا کو کشمیر کمیٹی کیا جاتا تھا۔مولانا ہولے ہولے کشمیر آزاد کراتے رہتے اور خان صاحب حکومت کرتے۔لیکن کپتان نے بھی سارے اقتدار کو بھی جپھا ڈال دیا رل مل کے کھاتے کیا جاتا تھا۔بھیا یہ پاکستان ہے یہاں بیانات کی کلیِ نپی رکھو اور مفادات کا ہینڈ پمپ دبی رکھو،عوام کو جھوٹے خواب دکھائی جاؤ۔بنتا سنگھ زمین پر کچھ تلاش کر رہا تھا لوگوں نے پوچھا تو بولا میرا زمین پر پانچ ہزار کا نوٹ گر گیا،لوگ بھی تلاش کرنے لگے،سنتا سنگھ بولا یار نوٹ کی کوئی نشانی،بنتا سنگھ بولا یار اس پر عید مبارک چھپا ہوا ہے۔قوم کو کبھی یہ نوٹ مل بھی گیا یا درکھے اس کی چوانی ملنی ہے نہ دوانی،صرف نوٹ پر لکھا عید مبارک ملنا ہے۔1947ء سے یہ قوم ککڑ بنی ایویں نوٹ تلاش کئے جا رہی ہے۔