روزن کھلا رکھنے کی نصیحت،آج کی سیاست میں گنجائش کہاں!

سیاست کے اپنے انداز ہیں، جو کوئی بھی اس میدان میں کودتا ہے، وہ اپنے طور پر عقل مند ہوتا ہے۔اکثر ہی نہیں، بلکہ سبھی افراد دوسروں کو ہمیشہ کمتر ہی جانتے ہیں، حتیٰ کہ جن حضرات پر اندھا اعتماد ہو، ان کو بھی عقل و دانش میں خود سے کم تر ہی سمجھا جاتا ہے۔ آج کل شریف فیملی اور وزیراعظم کے حوالے ہی سے زیادہ سیاست ہو رہی ہے تو یہاں بھی ایسا ہی معاملہ ہے اور پھر ہر جماعت میں جو سیکنڈ لائن(اسے دوسری سطح کہہ لیں) ہوتی ہے۔ اس کا کام اپنے لیڈر کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچانا ہوتا ہے،حتیٰ کہ نوبت یہ آ جاتی ہے کہ محترم سربراہ جماعت، حکومت خود کو حقیقتاً برتر جاننے لگتے ہیں۔ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف، قائد حزبِ اختلاف اور سابق وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف کے علاوہ آصف علی زرداری بھی اس دور سے گذر چکے، جو وزیراعظم عمران خان گذار رہے ہیں۔عمران خان جب سیاست میں تھے اور اقتدار سے دور تھے تو وہ موروثی سیاست پر طعن تو کرتے ہی تھے، ارتکاز اختیار اور خوشامد والے پہلو کا بھی ذکر کرتے اور معیوب گردانتے تھے،لیکن دیکھ لیں کہ اب ان کے ہلے بغیر ہوا ہی نہیں آتی اور جب تک ان کا نام نہ لیا جائے کسی وزیر، مشیر کی بات مکمل نہیں ہوتی اور وہ خود بھی صبح سے رات گئے تک اجلاسوں کی صدارت فرماتے اور احکام جاری کرتے ہیں۔
جہاں تک آصف علی زرداری کا تعلق ہے تو وہ ان دونوں جماعتوں کے راہبر حضرات سے تھوڑے مختلف ضرور ہیں،لیکن خوشامد آج بھی پسند فرماتے اور اختیارات استعمال کرتے ہیں، حتیٰ کہ صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کی طنابیں بھی کھینچ لیتے تھے، تاہم ان میں اتنا فرق ضرور ہے کہ وہ محفلی آدمی ہیں، مگر آپ موچی دروازے کی زبان استعمال کریں تو ان کو تھڑی(تھڑہ سیاست) بھی کہہ سکتے ہیں۔
بات اگر شریف برادران کی کریں تو دونوں کے مزاج میں تھوڑا فرق اور بعض عادات میں یکسانیت ہے، دونوں دوسرے کی سنتے اور اپنے دِل کی نہیں بتاتے،نواز شریف تو بہت ہی سنجیدہ اور تحمل والے سامع ہیں، بلکہ بعض قریبی دوستوں حتیٰ کہ صحافی حضرات کو سوال کر کر کے بولتے رہنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ دِل کی بات چھپانے پر قادر ہیں، تاہم مجلسی ضرور ہیں۔ ایک ایسا دور بھی تھا، جب ماڈل ٹاؤن والے گھر کے ڈرائنگ روم میں دوستوں کی محفل جماتے اور خوب گپ لگتی تھی، بڑے بھائی صاحب کو لطیفے بھی بہت یاد ہیں اور شہر کی دیسی زبان بھی بول لیتے ہیں، لیکن جماعتی اور حکومتی امور کے دوران سنجیدگی ہی کا مظاہرہ کرتے ہیں،ان کی نسبت چھوٹے بھائی تنک مزاج، سنجیدہ اتنے کہ بعض اوقات ”مغرور“ محسوس ہوتے ہیں، تاہم اپنی بات منوانے کا ہنر جانتے ہیں، بالکل ہی خشک تو نہیں، لیکن ڈرائنگ روم والی مجلس میں مشکل ہی سے ہنستے ہیں تاہم ڈپلومیٹ والی خصوصیات کے حامل ہیں۔
یہ سب عجیب سا تو محسوس ہو گا لیکن غیر متعلق نہیں، ہر دو کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا، نواز شریف لندن ہی رہ گئے،مریم یہاں ہیں۔ محمد شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز جیل میں تھے، چنانچہ مروجہ روایت اور قانون کے مطابق حکومت نے بھی ”فراخدلی“ کا مظاہرہ کیا، پہلے پانچ روز اور پھر ایک روز کی توسیع سے پیرول پر رہائی دی، چنانچہ وہ مرحومہ کی آخری رسومات میں شریک ہوئے اور پھر تعزیت کے لئے آنے والوں کا استقبال کیا، بعض حضرات کا خیال تھا کہ یہ غم کا موقع ہے جو سب کے لئے ہوتا ہے۔ تحریک انصاف والوں کو مزید ”فراخدلی“ کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا، حتیٰ کہ خود وزیراعظم کو تعزیت کے لئے آ جانا چاہئے تھا،لیکن ایسا نہ ہوا،بہرحال چودھریوں نے سماجی روایت کو برقرار رکھا اور سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی خود تعزیت کے لئے آ گئے۔ محمد شہباز شریف اور مریم کے ساتھ اظہارِ افسوس اور فاتحہ خوانی کی، حالانکہ مریم ملتان کے جلسے میں بہت کچھ کہہ کر آئی تھیں۔یہ ملاقات خبر والی تھی،اس پر زیادہ توجہ نہ دی گئی،حالانکہ غور طلب تھی کہ بعدازاں ایک اور اہم تعزیت سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی تھی،جنہوں نے اپنی ”راجپوتی ہٹ“ برقرار رکھی اور مریم سے ملے بغیر اپنے دوست ہم خیال محمد شہباز شریف کے ساتھ ہی تعزیت کی اور ملاقات بھی کی،بلکہ طویل تبادلہ خیال بھی کر گئے، ہمارے بھائی چونکے ضرور، لیکن کسی نے بعد میں توجہ نہ دی۔
ہمیں یہ سب لکھنے پر ایک خبر نے اکسایا، جو آج شائع ہوئی۔ گذشتہ روز آن ائر بھی ایسی بات ہوتی رہی کہ محمد شہباز شریف نے اپنی بھتیجی کو سمجھایا کہ سیاست میں اتنا سخت موقف نہ اپنائے کہ واپسی کی راہ ہی نہ رہے،بند گلی میں نہیں جانا چاہئے، ہوا کے لئے کوئی روزن کھلا رہنے دینا ضروری ہے کہ مذاکرات کی گنجائش ہو، ہمیں معلوم نہیں کہ یہ خبر نشر اور شائع ہوئی تو اس کا پس منظر کیا ہے، یا پھر یہ بھی میڈیا کا ہی کمال ہے، اس کا علم ہونا چاہئے، جہاں تک ہمارا خیال ہے یہ بھی سپانسرڈ ہے اور یہ کہہ کر لیک کی گئی، صرف آپ کو بتا رہا ہوں، کسی اور کو پتہ نہ چلے،کیونکہ چچا کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ تو کھلے بندوں قومی ڈائیلاگ کی بات کر چکے ہوئے ہیں۔ (مریم نواز نے ترید کی ہے)چنانچہ ان سے منسوب اس بات پر فوراً یقین کر لیا گیا،حالانکہ دونوں بھائیوں (نواز+شہباز) کے درمیان بھی تو طویل بات ہوئی، اس سے کوئی بڑی خبر کیوں نہیں بنی۔ بہرحال یہ بات طے ہے کہ خود شہباز شریف مفاہمت کے قائل ہیں،ان کو جیل میں رکھنے کا مطلب مفاہمتی فضا کو ہی خراب کرنا ہے اور یوں لگتا ہے ”کپتان کی اَنا“ یہ پسند نہیں کرتی کہ وہ چوروں، لٹیروں سے بات کریں تاہم حکمت عملی کے تحت مناسب تو یہ تھا کہ شہباز اندر ہی نہ جاتے اور اگر گئے اور پیرول کا موقع بنا تھا تو ان کو مزید ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ(والدہ کے چہلم تک) باہر ہی رہنے دیا جاتا تو سب کا بھلا ہوتا، ہمیں تو پھر اندازہ ہو گیا کہ ہمارے سمیت ان سب کو منہ کی کھانا پڑے گی، جو قومی مفاہمت کا راگ الاپتے رہتے ہیں، کیونکہ وزیراعظم کے خانے میں نرمی کی گنجائش نہیں، حالانکہ سیاست میں غیر لچکدار رویہ مناسب نہیں ہوتا۔ جمہوریت جیسی تیسی بھی ہو اس میں مذاکرات کی گنجائش ہوتی ہے،لیکن یہاں ایسا نہیں محسوس ہوتا کہ ایک طرف سے قطعی انکار ہے، اِس لئے ہمیں یہ بات ہضم نہیں ہوئی کہ چچا نے بھتیجی کو نصیحت کی۔