الزامات کی سیاست اور عسکری قیادت!
پاکستان میں سیاسی فضا انتہائی آلودہ ہو چکی ہے۔ اپوزیشن رہنما تو ایک طرف حکومتی زعما بھی سیاسی فضا کو آلودہ کر نے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ ملک میں کورونا کی دوسری لہر کی شدت بڑھ رہی ہے اور اپوزیشن کی احتجاجی تحریک بھی اپنا زور دکھا رہی ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی فضا کو مزید آلودہ ہونے سے بچایا جائے، لیکن تحریک انصاف کے جذباتی رہنما سوچے سمجھے بغیر اپوزیشن کی سیاسی تحریک کو نادانی میں کامیاب بنانے کے لئے اپنے الفاظ و بیانات کے ذریعے آگ پر تیل کا کام کر رہے ہیں۔میاں نواز شریف اگر بیمار نہیں تھے اور وہ حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونک کر باہر گئے تو اس کی ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ آج ملک میں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، رہی سہی کسر کورونا وبا نے پوری کر دی، حکومت کو اپنی توجہ اس موذی مرض کے سدباب کے لئے صرف کرنی چاہیے بقول حکومتی زعما کے عوام نے اپوزیشن کے جلسوں کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے،اپوزیشن کے جلسے بری طرح فلاپ ہو چکے ہیں، ان جلسوں میں عوام کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، پھر کورونا کیسز کے بڑھنے کا الزام اپوزیشن کو کیوں دیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن جلسوں میں عوام موجود ہی نہیں ہیں،وہاں کورونا کیسے پھیلے گا؟
اپوزیشن کے جلسوں میں میاں محمد نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے جو خطاب کیا، ان کا یہ خطاب الیکٹرانک میڈیا پر نہیں دکھایا گیا، لیکن ادھر نواز شریف یا اپوزیشن کے دیگر رہنما، اپنے جلسوں میں جو بھی زبان استعمال کرتے ہیں، وہ عوام کی ایک محدود تعداد سنتی ہے جن میں سے اکثریت شائد اسے سمجھنے سے بھی قاصر ہو،لیکن اپوزیشن کے جلسے ابھی ختم نہیں ہوتے کہ وزیراعظم کی پوری کابینہ، مشیر اور معاونینِ خصوصی ایک کورس کی صورت میں الیکٹرانک میڈیا پر سلیس زبان میں ان پر تبصرے شروع کر دیتے ہیں اور ان کے الفاظ و بیانات کی تشریح ایسے انداز میں کرتے ہیں، جنہیں سن کر لگتا ہے کہ یہ سب اپوزیشن کے پے رول پر ہیں، وہ عوام کو اپوزیشن کی باتیں اس طرح ذہن نشین کرا رہے ہوتے ہیں کہ ان کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے، جو باتیں پاکستان کے 21کروڑ 99 لاکھ افراد نے سنی ہی نہیں ہوتیں۔ ایک ایک ٹی وی چینل سمیت قومی اسمبلی اور دیگر اجتماعات میں حکومتی زعماء جس طرح میاں محمد نواز شریف، مریم نواز، مولانا فضل الرحمن، بلاول بھٹو وغیرہ کی تقریروں کی تشریح کرتے ہیں، انہیں سن کر عوام کی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا پر اپوزیشن رہنماؤں کی تقریروں کو سرچ کر کر کے انہیں دیکھتی ہے اور پھر موازنہ کرتی ہے کہ کس طرح حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے کہ وہ باتیں بھی کر رہی ہے جو کرنی بنتی ہی نہیں۔ اپوزیشن کا جلسہ ابھی ہفتے، پندرہ دن بعد ہونا ہوتا ہے، لیکن حکومتی زعماء مختلف چینلز پر دن رات اس کی تشہیر کر کے عوام کی ذہن سازی کر رہے ہوتے ہیں، لگتا ہے کہ جیسے عوام سے کہہ رہے ہوں کہ”تم نے ہر صورت ان جلسوں میں شرکت کرنی ہے“۔
حکومتی زعماء کے طرز عمل سے قومی اداروں کو جو نقصان ہو رہا ہے،اس کا شائد خود حکومت کو بھی اندازہ نہیں ہے۔ میاں محمد نواز شریف، مریم نواز یا الف، ب، ج،د نے اگر کسی کے خلاف ڈھکے چھپے یا کھل کر بھی کوئی بات کی ہے تو حکومتی وزراء اور مشیر اس کی گردان شروع کر دیتے ہیں اور عسکری قیادت کے نام لے لے کر تضحیک کرتے ہیں جو کسی بھی صورت حکومتی ارکان کو زیب نہیں دیتی، افسوس تو اس بات پر ہے کہ وزیراعظم عمران خان خود بھی عسکری رہنماؤں کے نام لے کر کہتے ہیں کہ" اگر میرے ساتھ انہوں نے اس طرح کیا ہوتا تو میں انہیں فارغ کر دیتا۔،" پی ٹی آئی کی قیادت اپنے جوش میں وہ باتیں ببانگ دہل کہہ دیتی ہے جو کسی بھی صورت کہنے کی نہیں ہیں۔ عسکری قیادت سمیت کسی بھی قومی ادارے کے خلاف اپوزیشن سمیت کسی کو بھی الزام تراشی کی اجازت نہیں ہونی چاہئے، اگر کسی کو شکایت ہے تو وہ تحریری صورت میں ایک قاعدے قانون کے تحت آئین میں جو اختیار دیا گیا ہے، اسے اپنائے تاکہ اس کا بروقت ازالہ بھی ممکن ہو سکے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اپوزیشن تو شور مچاتی ہی ہے بلکہ وہ نمک، مرچ، مصالحہ لگا کر الزامات لگاتی ہے لیکن حکومتی اراکین حاضر دماغی اور بصیرت استعمال کرتے ہیں، آگ پر بجائے تیل ڈالنے کے اس پر پانی ڈال کر ٹھنڈا کرتے ہیں۔
اس وقت ملکی حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ ایسی بیان بازیوں اور الزامات پر بند باندھنا ضروری ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے پاکستان مسلم لیگ ق کے قائدین بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جس طرح چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی نے مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کو راتوں رات گفت و شنید کے ذریعے حل کروایا، وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔اس مسئلے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے درمیان قومی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے دور اندیش سیاسی و صحافتی زعماء پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے کر اس کا فوری تدارک ممکن بنایا جائے، تاکہ ملکی معاملات احسن طریقے سے چل سکیں۔